021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دار الاسلام میں اقلیت کی عبادت گاہوں کاحکم
74010حکومت امارت اور سیاستدارالاسلام اور دار الحرب اور ذمی کے احکام و مسائل

سوال

جیسا کہ آپ حضرات کے علم میں ہے کہ متحدہ علماء کونسل کوہاٹ کے زیر اہتمام ماہانہ فقہی مجلس کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔رواں ماہ 23 مئی 2021 بروز اتوار بعد نماز ظہر کوتوالی مسجد مین بازار کوہاٹ  میں فقہی مجلس کا انعقاد کیا گیا ہے ، جس میں درج ذیل مسائل پر تفصیلی بحث درکار ہے ۔امید ہے آپ حضرات شفقت و حوصلہ افزائی فرماکر درج ذیل مسائل  کا باحوالہ  تحریری حل پیش فرمائیں گے۔

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی بھی اسلامی ریاست میں مسلم اکثریتی علاقوں میں معابد بیعہ یعنی(عیسائیوں کا عبادت خانہ)کنیسہ(یہودیوں کا عبادت خانہ)مندر(ہندووں کا عبادت خانہ)اور گوردوارہ(سکھوں کا عبادت خانہ)وغیرہ کا مندرجہ ذیل تفصیل کے مطابق حکم کیا ہے؟

1-ان معابد کی ازسر نو تعمیر کرنا؟

2-اگر کوئی معبد منہدم ہوجائے ،تو اس کو دوبارہ تعمیر کرنا؟

3-اگر کوئی معبد کسی سرکاری ادارے مثلا :اسکول یا ہسپتال وغیرہ میں تبدیل ہوجائے، تو اس کو دوبارہ بطور معبد بحال کرنا کیسا ہے؟

4-اگر کسی شہر میں معابد کی تعداد ان کے رہائشی افراد کے مقابلے میں زیادہ ہو، تو ان زائد معابد کا کیا حکم ہے؟

5 جو معابد ویران ہوں ان کی پراپرٹی اور ملبے کا کیا حکم ہے؟

6-ان معابد کی تعمیر اور مرمت میں عام مسلمانوں یا مسلم حکمرانوں  کا تعاون کرنا جائز ہے؟

7-مسلم اکثریتی  علاقوں میں اقلیت کے معابد ملحدین یا زنادقہ کے ناجائز معابد کھلنے کا سبب بنے ،تو اس صورت میں اقلیت کے معابد کو آباد کرنا کیسا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1،2:اقلیتوں کے لیے اپنی سابقہ منہدم یا بوسیدہ عمارت کو دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت ہے،بشرطیکہ  دوبارہ تعمیرکرتے وقت اسے اس کی پرانی حالت پر ہی بحال کیا جائے ،اس میں کسی قسم کا اضافہ یا تعمیری تبدیلی   نہ کی جائے۔البتہ اگر کوئی عبادت خانہ تعمیر کے علاوہ کسی اور غرض سے گرایا گیا ہو یا حکومت ِوقت نے اسے مسمار کردیا ہو،تو ایسی جگہ دوبارہ عبادت خانہ تعمیر کرنے کی اجازت نہیں۔

3: اگر کوئی عبادت گاہ اسکول یا ہسپتال وغیرہ میں تبدیل  کردی گئی ہو، تو  ایسی صورت میں اس جگہ پھر سے عبادت گاہ قائم کرنا یا ان لوگوں کا اس جگہ مذہبی عبادات  سر انجام دینا جائز نہیں۔

4:اسلامی  ملک کےکسی شہر میں اگر دیگر مذاہب کے عبادت خانوں کی تعداد اس  شہر میں ان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ  ہو،تو عام مسلمانوں کے لیے پھر بھی ان  زائد عبادت خانوں کو توڑنا  جائز نہیں۔

5-اسی طرح دیگر مذاہب کے جو عبادت خانے ویران پڑے ہوں وہ انہی اہل مذاہب کی ملکیت ہیں،مسلمانوں کے لیے ان پر قبضہ کرنا جائز نہیں۔

6:اقلیت برادری  کے لوگ اگر منہدم ہوجانے والے معابد کی تعمیر ومرمت کرنا  چاہیں، تو مسلمان انہیں منع نہیں کریں گے،البتہ عام مسلمانوں یا مسلم حکمرانوں  کا اس میں کسی قسم کا تعاون کرنا جائز  نہیں اور نہ ہی مسلم حکمران انہیں صراحت سے  تعمیر کی اجازت دے سکتے ہیں۔

7:مسلم اکثریتی علاقوں میں اقلیت کے عبادت خانے اگر ملحدین یا زنادقہ کے ناجائز مراکز کھلنے کا سبب  بنیں،توحاکم ِوقت کی ذمہ داری ہے کہ  ان اسباب کا تدارک کرکے اہل مذاہب کو ان کاموں سے زبردستی روکے ، البتہ عام  مسلمانوں کے لیے اہل مذاہب کو ان کی عبادت گاہیں آباد کرنے سے روکنا جائز نہیں۔

حوالہ جات
قال العلامة الحصکفی رحمہ اللہ:(ويعاد المنهدم) :أي لا ما هدمه الإمام، بل ما انهدم. أشباه: في آخر الدعاء برفع الطاعون (من غير زيادة على البناء الأول) ولا يعدل عن النقض الأول إن كفى، وتمامه في شرح الوهبانية.
قال العلامة  ابن عابدین رحمہ اللہ: قوله :(ويعاد المنهدم): هذا في القديمة التي صالحناهم على إبقائها قبل الظهور عليهم. قال في الهداية: لأن الأبنية لا تبقى دائما، ولما أقرهم الإمام فقد عهد إليهم الإعادة إلا أنهم لا يمكنون من نقلها ؛لأنه إحداث في الحقيقة. اهـ.قوله :(وتمامه في شرح الوهبانية) :ذكر عبارته في النهر حيث قال: قال في عقد الفرائد: وهذا أي قولهم من غير زيادة يفيد أنهم لا يبنون ما كان باللبن بالآجر، ولا ما كان بالآجر بالحجر ،ولا ما كان بالجريد، وخشب النخل بالنقي والساج، ولا بياض لم يكن. (رد المحتار :4 /203)
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ: الكنيسة إذا هدمت ولو بغير وجه لا يجوز إعادتها، ذكره السيوطي
في حسن المحاضرة…..بخلاف ما إذا هدموها بأنفسهم ،فإنها تعاد، كما صرح به علماء الشافعية . وقواعدنا لا تأباه؛ لعدم العلة التي ذكرناها، فيستثنى من عموم كلام السبكي.(رد المحتار:4/204)
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ :واتفقت مذاهب الأئمة الأربعة على أنهم يمنعون عن الإحداث ، كما بسطه الشرنبلالي بنقله نصوص أئمة المذاهب، ولا يلزم من الإحداث أن يكون بناء حادثا؛ لأنه نص في شرح السير وغيره على أنه لو أرادوا أن يتخذوا بيتا لهم معدا للسكنى كنيسة يجتمعون فيه ، يمنعون منه ؛لأن فيه معارضة للمسلمين وازدراء بالدين. اهـ.(أیضا:4/ 205)
وقال أیضا:قوله :(أشباه): حيث قال في فائدة  :نقل السبكي الإجماع على أن الكنيسة إذا هدمت ولوبغير وجه، لا يجوز إعادتها ،ذكره السيوطي في حسن المحاضرة. قلت: يستنبط منه أنها إذا قفلت، لا تفتح ولو بغير وجه ،كما وقع ذلك في عصرنا بالقاهرة في كنيسة بحارة زويلة ،قفلها الشيخ محمد بن إلياس قاضي القضاة، فلم تفتح إلى الآن حتى ورد الأمر السلطاني بفتحها، فلم يتجاسر حاكم على فتحها.ولا ينافي ما نقله السبكي قول أصحابنا: يعاد المنهدم؛ لأن الكلام فيما هدمه الإمام، لا فيما تهدم، فليتأمل. اهـ.
قال الخير الرملي في حواشي البحر: أقول: كلام السبكي عام فيما هدمه الإمام وغيره ،في كلام الأشباه يخص الأول. والذي يظهر ترجيحه العموم ؛لأن العلة فيما يظهر أن في إعادتها بعد هدم المسلمين استحفافا بهم، وبالإسلام وإخمادا لهم وكسرا لشوكتهم، ونصرا للكفر وأهله ،غاية الأمر أن فيه افتياتا على الإمام ،فيلزم فاعله التعزير.(رد المحتار:4 /204)
قال العلامة ابن الہمام رحمہ اللہ : واعلم أن البيع والكنائس القديمة في السواد لا تهدم على الروايات كلها، وأما في الأمصار فاختلف كلام محمد، فذكر في العشر والخراج: تهدم القديمة، وذكر في الإجارة: أنها لا تهدم وعمل الناس على هذا، فإنا رأينا كثيرا منها توالت عليها أئمة وأزمان، وهي باقية ،لم يأمر بهدمها إمام ،فكان متوارثا من عهد الصحابة رضي الله عنهم.(فتح القدیر:6 /58)
وفیہ أیضا:ذكر الشرنبلالي في رسالة في أحكام الكنائس عن الإمام السبكي: أن معنى قولهم: "لا نمنعهم من الترميم''، ليس المراد أنه جائز نأمرهم به، بل بمعنى نتركهم وما يدينون، فهو من جملة المعاصي التي يقرون عليها كشرب الخمر ونحوه، ولا نقول: إن ذلك جائز لهم، فلا يحل للسلطان ولا للقاضي أن يقول لهم: افعلوا ذلك ،ولا أن يعينهم عليه، ولا يحل لأحد من المسلمين أن يعمل لهم فيه، ولا يخفى ظهوره وموافقته لقواعدنا.(أیضا)
قال العلامة ابن الہمام رحمہ اللہ :إن وقع الصلح مطلقا لا يجوز الإحداث ولا يتعرض للقديمة ، ويمنعون من ضرب الناقوس وشرب الخمر واتخاذ الخنزير بالإجماع، انتهى.وقوله: يمنعون من شرب الخمر: أي التجاهر به وإظهاره. وفي المحيط: لو ضربوا الناقوس في جوف كنائسهم لا يمنعون ،انتهى. وقال محمد: كل قرية من قرى أهل الذمة أو مصر أو حديقة لهم أظهروا فيها شيئا من الفسق مثل الزنا والفواحش التي يحرمونها في دينهم يمنعون منه، وكذا عن المزامير والطنابير والغناء، ومن كسر شيئا من ذلك لم يضمن.(فتح القدیر:6 /58)

سعد خان

دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

27/01/1443

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد خان بن ناصر خان

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب