021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں اہلیہ، چار بیٹوں اور تین بیٹیوں کے درمیان وراثت کی تقسیم
74159میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

سوال کا خلاصہ:

زندگی میں کل 8100000 (اکیاسی لاکھ) روپے مالیت کی جائداداہلیہ، چار بیٹوں اور تین بیٹیوں کے درمیان  درجہ ذیل طریقے سے تقسیم کی ہے۔

اہلیہ کو آٹھواں حصہ یعنی 1012500

ہربیٹے کا حصہ 1288636

ہربیٹی کا حصہ 644318

کیا یہ تقسیم درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

    زندگی میں جائداد وغیرہ کی تقسیم ہبہ یعنی گفٹ کہلاتی ہے۔ہبہ یعنی گفٹ کا حکم یہ ہے کہ ہبہ کرتے ہوئےاولاد میں برابری کی جائے یعنی بیٹے اور بیٹیوں، سب کو برابر حصہ دیا جائے۔ صورت مسؤولہ میں بیوی کو آٹھواں حصہ دیے جانے کے بعد اولاد میں سے ہر ایک کوخواہ وہ بیٹا ہو یا بیٹی سب کو برابر حصہ دیا جائے۔نیزہبہ کرتے ہوئے یہ بھی ضروری ہے کہ واہب یعنی ہبہ کرنے والاموہوب لہ(یعنی جس کو ہبہ کیا گیا ہے) کا مالکانہ تصرف کے اختیار کے ساتھ ہبہ کی جانے والی چیز پر مکمل قبضہ کروائے تاکہ ہبہ یعنی گفٹ کی تکمیل شرعی طریقے سے ہوجائے۔سوال میں ذکر کردہ صورت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں فقط ایک معاہدہ ہوا تھا باقاعدہ تقسیم کرکے ہبہ نہیں کیا گیا تھا لہذا اگر مالک زندہ ہے اور زندگی میں جائداد وغیرہ تقسیم کرنا چاہتا ہے تو درج ذیل تفصیل کے مطابق تقسیم کرے بصورت دیگر وراثت کے شرعی اصولوں کے مطابق مذکورہ جائداد کی تقسیم کی جائے گی۔

۱۔اولاد میں برابر حصہ تقسیم کرےاور ہر ایک کو اس کےحصے کا مالک بنا کر باقاعدہ تقسیم کرکے قبضہ کروائے ۔

۲۔اگر اولاد میں برابر حصہ تقسیم نہیں کیا اور برابر حصہ تقسیم نہ کرنے کی وجہ، کسی کو نقصان پہنچانا ہے تویہ عمل مکروہ تحریمی ہے ،اگر نقصان پہنچانا مقصود نہیں اور کوئی وجہ ترجیح بھی نہیں تو یہ عمل مکروہ تنزیہی ہے ،اس لیے کہ بہرحال اولاد میں سے ہر ایک کو خواہ وہ بیٹا ہو یا بیٹی برابرہبہ( گفٹ) کرنا یہ مستحب ہے۔

۳۔ اولاد کو ہبہ کرتے ہوئے کسی معقول وجہ سے کمی بیشی کی جاسکتی ہے،مثلاً دینداری، امور دینیہ میں مشغول ہونا،خدمت یا زیادہ محتاج ہونا  وغیرہ اور اس طرح کی وجوہات کی وجہ سے کمی بیشی کرنا  مستحب ہے۔

۴۔اگر جائداد مشترکہ طور پر ہبہ کرنے کا ارادہ ہو اور جائداد قابل تقسیم ہو تو باقاعدہ تقسیم کرکے مالک بنا کر قبضہ کروائے تاکہ ہبہ کی تکمیل شرعاً بھی ہوجائے، البتہ اگر جائداد قابل تقسیم نہ ہو تب بھی بہر حال مالک بنا کر باقاعدہ  قبضہ کروانا ضروری ہے، جس کے لیے یہ طریقہ ممکن ہے کہ جو جائداد جن ورثاء کو ایک ساتھ ہبہ کی جائے اُن میں سے کسی ایک کو اس کی تقسیم کا وکیل بنادیا جائے اس طرح اُس وکیل کو تخلیہ کرادینے سے ہبہ تام ہوجائے گا۔

حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (7/ 288)
يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم كذا في المحيط وفي فتاوى قاضي خان رجل أمر شريكه بأن يدفع إلى ولده مالا فامتنع الشريك عن الأداء كان للابن أن يخاصمه إن لم يكن على وجه الهبة وإن كان على وجهها لا لأنه في الأول وكيل عن الأب وفي الثاني لا وهي غير تامة لعدم الملك لعدم القبض وفي الخلاصة المختار التسوية بين الذكر والأنثى في الهبة ولو كان ولده فاسقا فأراد أن يصرف ماله إلى وجوه الخير ويحرمه عن الميراث هذا خير من تركه لأن فيه إعانة على المعصية ولو كان ولده فاسقا لا يعطي له أكثر من قوته.
عيون المسائل للسمرقندي الحنفي (ص: 350)
التسوية في الهبة بين الابن والابنة
1733. رجل له ابن وابنة فأراد أن يهب لهما شيئاً فالأفضل أن يسوي بينهما في قول أبي يوسف، وقَالَ مُحَمَّدٌ: يجعل للذكر مثل حظ الانثيين. فإن وهب ماله كله للابن؟ قَالَ: هو آثم وأجيزه في القضاء.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 696)
وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 690)
(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل.

محمد حمزہ سلیمان

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

11/صفر   1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب