021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گاؤں میں نمازِ جمعہ شروع کرنے کا حکم(جمعہ فی القری)
74191نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

سوال :کیا فرماتے ہیں علماءِکرام اس مسئلہ کے بارے میں:

کہ ایک گاؤں  پہاڑی علاقہ میں واقع چھوٹے محلوں پر مشتمل ہے ،ہر محلہ دوسرے محلے سے تقریبا پندرہ منٹ کی مسافت پر ہے اورہر محلے میں پندرہ گھر اور تقریبا پچاس بالغ افراد اور پورےگاؤں میں پچاس گھر اور سو سے ایک سو بیس  تک بالغ افراد ہیں۔گاؤں  مرکزی بازار سے پانچ کلو میٹرکے فاصلہ پر ہے،البتہ متصل بازار میں تین دکانیں ہیں جن میں ضرورت کی اشیاء موجود ہیں،دو میڈیکل سٹور،ایک پرائمری سکول ،مقبرہ اور روڈ موجود ہیں۔نیز سرکار کی بنائی ہوئی جرگہ کمیٹی ہے جو نچلی سطح کے فیصلے کرتی ہے۔تھانہ نہیں ہے۔اب پوچھنا یہ ہے کہ اس قسم کے گاؤں میں نمازِجمعہ شروع کرنا جائز ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

فقہاء احناف کے نزدیک جمعہ کی نماز صرف شہر، فناء شہر اور شہری سہولیات کے حامل بڑے گاؤں یعنی قصبہ میں ہی جائز ہے۔ گاؤں میں جائز نہیں۔

قصبہ کی تحدید نصوص میں موجود نہیں،جن فقہاء کرام نے اس حوالے سے کوئی تحدید کی ہے وہ تقریبی،تخمینی اور عرف پر مبنی ہے۔لہذا عرف میں کسی بستی کو آبادی،ضروریات کی فراہمی وغیرہ کے ذریعے شہر یا قصبہ سمجھا جاتا ہو تو وہاں جمعہ جائز ہے ورنہ نہیں۔ بظاہرتفصیلِ بالا کے مطابق مذکورہ بستی میں جمعے کی نماز پڑھنا جائز نہیں۔البتہ اگرعلاقے کا ڈی سی یا اے سی جمعہ قائم کرنے  کا ٖحکم فرمادیں تو جمعہ ٹھیک ہو جائے گا۔

بہتر یہ ہے کہ دو معتبر صاحب الرائے مفتیانِ کرام کو بلا کر مشاہدہ کروادیا جائے،پھر جو کچھ وہ تجویز کریں اس پر عمل کر لیا جائے۔   

حوالہ جات
وزعم أبو حنيفة أنه بلغه عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر جامع» (الآثار لابی یوسف،باب صلاۃ العیدین:60).
 عن علي قال: لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر جامع (مصنف بن ابی شیبۃ،کتاب الجمعۃ،باب القری الصغار:3/168).
أما المصر الجامع فشرط وجوب الجمعة وشرط صحة أدائها عند أصحابنا حتى لا تجب الجمعة إلا على أهل المصر ومن كان ساكنا في توابعه وكذا لا يصح أداء الجمعة إلا في المصر وتوابعه فلا تجب على أهل القرى التي ليست من توابع المصر ولا يصح أداء الجمعة فيها.(بدائع الصنائع،کتاب الصلاۃ،فصل فی شرائط الجمعۃ:1/259).
عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث وهذا هو الأصح. وفي القهستاني: إذن الحاكم ببناء الجامع في الرستاق إذن بالجمعة اتفاقا على ما قاله السرخسي وإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة؛ ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر، وهذا إذا لم يتصل به حكم، فإن في فتاوى الديناري إذا بني مسجد في الرستاق بأمر الإمام فهو أمر بالجمعة اتفاقا على ما قال السرخسي اهـ فافهم والرستاق القرى كما في القاموس.(رد المحتار2:/137)
واعلم ان القریۃ،والمصر من الاشیاء العرفیۃ التی لا تکاد تنضبط بحال وان نص،ولذا ترك  الفقہاء تعریف المصر علی العرف.(فیض الباری علی صحیح البخاری:2/423)

محمد انس جمال

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

11/صفر/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

انس جمال بن جمال الدین

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب