021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دس سال سے زائد عمر افراد میں بستر الگ کرنے کا مسئلہ
74179جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

جب بچہ دس سال کا ہو جائے تو بستر الگ کرنے کاحکم ہے،نہ وہ ماں باپ کے ساتھ ایک بستر پر سو سکتے ہیں اور نہ ہی دو بھائی بہن ایک ساتھ سو سکتے ہیں،مگر کیا دس سال کے ہونے کے بعد دو یا اس سے زائد بھائی ایک بستر پر سو سکتے ہیں؟ اور اسی طرح دو تین بہنیں نیز کیا ایک بھائی دس سال کا یا زیادہ ہے تو دس سال سے چھوٹے بھائی یا بہن اس کے ساتھ سو سکتے ہیں؟ اسی طرح بہن بھی دس سال کی ہے تو اس کے ساتھ چھوٹے بھائی بہن سو سکتے ہیں؟ اور کیا یہ حکم صرف بچوں کا ہے؟ کیونکہ لوگ ایسا کرتے ہیں کے چچا اور جوان بھتیجے ساتھ سو رہے، تو ماما بھانجے، مامی بھانجی، پھوپھی بھتیجی، پھوپھا بھتیجا، اسی طرح کوئی خالو کے ساتھ سو کر ہے، کون کون سی صورت جائز ہے اور کون ناجائز سب واضح کر دیجیئے، اور گھر میں جگہ کم ہونے کی صورت میں کیا کیا جائے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یہ حکم عام ہے،لہذادس سال ہونے کے بعد کوئی بھی دو شخص چاہیں وہ بہن بھائی ہوں یا دونوں بھائی یا دونوں بہنیں ہو یا کہ غیر ہوں ، بہر حال ان کا ایک بست یا چارپائی وغیرہ پر بلا کسی حائل کے سونا منع ہے اور درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ حائل ہو تو  مکروہ تنزیہی ہے،البتہ دس سال یا اس سے زائد عمر کا لڑکا اپنے صرف والد اور داد اور لڑکی اپنی صرف والدہ اور دادی کے ساتھ سو سکتی ہے۔لہذا اس کے علاوہ بھی دیگر رشتہ داروں کے ساتھ یامخالف جنس کے ساتھ سونا جائزنہیں۔(احسن الفتاوی:ج۸،ص۱۷۱)

گھر میں جگہ کم ہونے کی صورت میں کپڑے کی ایسی رکاوٹ اور اتنا فاصلہ کافی ہے،جس سے جسم کی حرارت محسوس نہ ہو۔

حوالہ جات
۔۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۳صفر۱۴۴۲ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب