74167 | نکاح کا بیان | کئی بیویوں میں برابری کا بیان |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری سالی کے شوہر نے دوسرا نکاح کیا جبکہ اس کے چھ بچے پہلے سے ہیں،پانچ لڑکے ا ور ایک لڑکی۔جس دن ا س نے نکاح کیا تھا اس دن میری ا ہلیہ کو میری سالی کا فون آیا تھا۔ و ہ بہت رو رہی تھی، کیونکہ وہ بغیر اجازت کے نکاح کر رہا تھا۔تو کیا اس طرح بغیر اجازت کے دوسرا نکاح کرنا جا ئز ہے؟ جب کہ اس کی اتنی تنخواہ بھی نہیں ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
شوہر کے لیے دوسرا نکاح کرنے میں پہلی بیوی سے اجازت لینا شرعا ضر وری نہیں ا ور نہ ہی پہلی بیوی کی اجازت پر موقوف ہے۔ البتہ اگرپہلی بیوی کو اعتماد میں لے لیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ نباہ میں آسانی ہوگی۔
تاہم اگرشوہر کی آمدنی اتنی نہیں کہ جس سے دونوں بیویوں کےمالی حقوق ادا کر نے میں عدل ہو سکے ،ا ور نکاح ثانی کی وجہ سے پہلی بیوی ا ور اس کے بچوں کے اخراجات برداشت کرنے میں دشوا ری پیش آتی ہو،تو اس صورت میں دوسرا نکاح نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ ایک سے زائد شادیو ں کی اجازت تب ہے کہ جب ان کے نان و نفقہ کی طاقت رکھتا ہواور ان کےدرمیاں عدل کر سکے۔
حوالہ جات
قال اللہ تعالی: فَٱنكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ ٱلنِّسَآءِ مَثۡنَىٰ وَثُلَٰثَ وَرُبَٰعَۖ فَإِنۡ خِفۡتُمۡ أَلَّا تَعۡدِلُواْ فَوَٰحِدَةً (النساء:3)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی: (و) صح (نكاح أربع من الحرائر والاماء فقط للحر) لا أكثر(درالمختار،4/139)
قال ابن الہمام رحمہ اللہ تعالیٰ: وَقَالَ تَعَالَى {فَإِنْ خِفْتُمْ أَلا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ} [النساء: 3] بَعْدَ إحْلَالِ الْأَرْبَعِ بِقَوْلِهِ تَعَالَى {فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاثَ وَرُبَاعَ} [النساء: 3] فَاسْتَفَدْنَا أَنَّ حِلَّ الْأَرْبَعِ مُقَيَّدٌ بِعَدَمِ خَوْفِ عَدَمِ الْعَدْلِ وَثُبُوتَ الْمَنْعِ عَنْ أَكْثَرَ مِنْ وَاحِدَةٍ عِنْدَ خَوْفِهِ.(فتح القدیر، کتاب النکاح، باب القسم، 3/373)
قال الشیخ نظام رحمہ اللہ تعالی: ومما يجب على الأزواج للنساء العدل والتسوية بينهن فيما يملكه والبيتوتة عندها للصحبة والمؤانسة. (الفتاوی الہندیہ، کتاب النکاح، باب القسم، 1/373)
عبدالعظیم بن راحب خش
دارالافتاء، جامعۃالرشید ،کراچی
14/صفر 1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالعظیم بن راحب خشک | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |