021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شارٹ گن اور رائفل سے کئے گئے شکار کا حکم
74174ذبح اور ذبیحہ کے احکام شکار سے متعلق مسائل

سوال

شارٹ گن یعنی چھرے والی گن سے شکار کا کیا حکم ہے؟اسی طرح رائفل سے شکار کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرتیر جیسے تیز دھار کسی آلے پر بسم اللہپڑھ کر اس سے شکار کیا جائے اور شکارذبح کرنے سے پہلے پہلے مرجائےتو حدیث میں صراحتہونےکی بناء پر ایسا شکار بالاتفاقحلال ہوجاتا ہے،شکار کےحق میں شریعت نے اس ذبح ِاضطراری کو معتبر قرار دیکر اسے حلال قرار دیاہے،جبکہ شکا رکے بغیر عام جانور میں ذبح اختیاری یعنی بسم اللہ پڑھ کر گلے پر چھری چلاتے ہوئے کم از کم تین رگوں کو کاٹناضروری قراردیاہے، ذبح اضطراری میں چونکہ یہ ضروری ہے کہ وہ کسی نوک دار یا تیز دھار آلے سے ہو ۔

چونکہ گولی اور چھرہ خود جارح نہیں ہیں،بلکہ عموماً جانور ان کے پریشر سے زخمی ہوتا ہے،اس لیے گولی یا چھرے سے کیا ہوا شکار اگرذبح سے پہلے ہلاک ہوجائے، تو اس کا کھانا جائزنہیں،کیونکہ ایسا شکارموقوذہ(چوٹ مار کر ہلاک کیے گئے) جانور کے حکم میں ہے اور موقوذہ جانور کی حرمت کی  قرآن کریم  میں تصریح موجود ہے،چنانچہ سورہ مائدہ آیت نمبر 3 میں اللہ تعالى کا فرمان ہے :

 حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ذَلِكُمْ فِسْقٌ (المائدۃ :3)

ترجمہ:تم پر مردار جانور،خون اور سؤر کا گوشت،اور وہ جانور حرام کردیا گیاہےجس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو،اور وہ جو گلا گھٹنےسے مرا ہو،اور جسے چوٹ مار کر ہلاک کیا گیا ہو، اور جو اوپر سے گر کر مرا ہو،اور جسے کسی جانور نے  سینگ  مار کر ہلاک کیا ہو،اور جسے کسی درندے نے کھا لیا ہو،الایہ کہ تم (اس کے مرنے سے پہلے)اس کو ذبح کرچکے ہو،اوروہ(جانور بھی حرام ہے)جسے بتوں کی قربان گاہ پر ذبح کیا گیا ہو،اور یہ بات بھی (تمہارے لیے حرام ہے)کہ تم جوئے کے تیروں سے (گوشت وغیرہ )تقسیم کرو،یہ ساری باتیں سخت گناہ کی ہیں۔

اسی طرح صحیح بخاری (3/ 54)کی حدیث میں تیر کے بارے میں بھی صراحت ہے کہ اگر تیر نوکیلی طرف شکار کو نہ لگے،چوڑائی  میں جاکر لگے تو ایسا شکار حرام ہے،روایت ملاحظہ ہو:

عن عدي بن حاتم رضي الله عنه، قال: سألت النبي صلى الله عليه وسلم عن صيد المعراض، قال: «ما أصاب بحده فكله، وما أصاب بعرضه فهو وقيذ»

 سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے تیر سے  شکار کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر اس کی دھار سے زخمی ہوجائے تو اسے کھا ؤاور اگر اس کی چوڑائی   (جس میں تیز دھار نہ ہو ) سے شکار ہو اہواسے نہ کھاؤ ،وہ وقیذ (یعنی چوٹ لگ کر مرنے والا جانور) ہے  ۔

حوالہ جات
۔۔۔۔۔

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

14/صفر1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب