021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خاتون کے لیے ٹیچنگ کا حکم اورعلمی اختلاف رائے کی صورت میں عوام کیا کریں۔
77882جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

مفتی صاحب! ایک مسئلہ وضاحت سے پوچھنا ہے،مسئلہ یہ ہے کہ میں کسی ایک عالم سے مسائل دریافت نہیں کرتی ہوں،جو فارغ ہوتے،ان سے پوچھ لیتی ہوں،بہت بار ایک ہی مسئلہ کئی مفتی حضرات سے بھی پوچھ لیتی اور مختلف دیوبند مسلک کےجامعات کی ویب سائٹ پر بھی فتاوی سرچ کرتی ہوں،بعض اوقات مسائل میں علماء کی رائے مختلف ہوتی ہےیہاں تک کے ایک ہی ویب سائٹ پر ایک ہی سوال کے مختلف جواب ہوتےہیں تومیں کئی بار گنجائش کے پہلو پر عمل کر لیتی ہوں،جبکہ میں نے مسئلہ بھی پڑھاتھا کہ ایسا کرنا نفس کی اتباع ہےاور حال ہی میں جی ٹی آر ٹرانسمیشن میں مفتی محمد صاحب کی زبانی سنا کہ اپنی مرضی کے مسائل پر عمل کرنا ایمان کے لئے خطرناک ہے تو بہت پریشان ہوں،اس کے باوجود پھر بھی میں نے عورت کے لئے لڑکیوں کے سکول میں ٹیچنگ کے حوالےسے بہت سے علماء سے پوچھا، کچھ نے فرمایا کہ معاشی تنگی نہ بھی ہو تب بھی ٹیچنگ کرنا جائز ہے،مگر کچھ حضرات اجازت نہیں دیتے،جبکہ میں نے اس کے لئے بہت پڑھائی بھی کی ہے،ٹیسٹ بھی دیا ہے،اب میں کیا کروں؟ کچھ حضرات گھر سے دور مدرسہ جانے اور آن لائن دینی تعلیم حاصل کرنےکی بھی اجازت نہیں دیتے،جبکہ جامعہ بنوریہ میں دور دراز سے لڑکیاں ہاسٹل میں پڑھنے کے لئے آتی ہیں۔

مفتی صاحب!اس مسئلہ کی واضح رہنمائی فرما دیں،کیونکہ جہاں تک مجھے سمجھ آتا ہے،بعض اوقات جواز کا پہلو ہوتا ہے،مگر کسی وجہ سے علماء بیان نہیں کرتےاورشاید اختلاف چند مسائل میں ہی ہو سکتا ہے،مجھے اس بارے میں ہمیشہ شبہ رہتا ہے،تھوڑا سا بھی علماء کی بات میں فرق  دیکھتی ہوں تو خیال آتا ہےکہ کہیں اختلاف نہ ہو،اگر کوئی تمام علماء کی رائے کا احترام کرتا ہے اور سب کو سچ مانتا ہے تب بھی کسی ایک رائے پر عمل کرنا ایمان کے لئے خطرناک ہو گا؟

ا) کیا شدید ضرورت کے علاوہ کچھ مسائل میں گنجائش کے پہلو پر عمل نہیں کیا جا سکتا؟

ب)کیا علماء دیوبند میں بہت سے مسائل میں اختلاف ہے؟روزہ,زکوۃ جیسے ضروری مسائل کا حل اگر فوری چاہیے ہو تو کسی بھی عالم سے پو چھ سکتے ہیں؟

ج) کیا میں ٹیچنگ کرنےکےجواز کےفتوی پر عمل کرسکتی ہوں کوئی رعایت ہےدین میں؟یا یہ ایمان کےلئےخطرناک ہو گا؟

د) کیا فتوی بھی کسی ایک درالافتاء سےلینا چاہیے،جبکہ علماء خود فرماتے ہیں کہ کسی بھی مستند ادارہ سے فتوی لیا جا سکتا ہے؟

د) کس صورت میں مختلف آراء پر عمل کرنے کی گنجائش ہے؟ضرور جواب عنایت فرما دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(۱۔د۔ب)بعض مسائل میں رائے کا اختلاف تو سب جگہ پایا جاتا ہے اور یہ کوئی برااور ممنوع نہیں، بلکہ اس میں عوام کے لیے سہولت کا پہلو نکلتاہے،چنانچہ ایک ہی مذہب مثلا مذہب حنفی میں کسی ایک مسئلہ میں اہل حق علماء میں اختلاف رائے ہو تو اس میں  کسی  بھی ایک کی  رائے پر عمل کیا جاسکتا ہے، البتہ اختلاف رائے کی صورت میں کسی ایک کی رائے کو لینے کا اصولی طریقہ کار یہ ہے کہ جس عالم کے علم اور تقوی پر بھروسہ ہو اس کی رائے پر عمل کرنا چاہئے اور اگر سب پر اعتماد ہو تو جسکے علم اور تقوی پر زیادہ اعتماد ہو اس کی رائے اور فتوی پر عمل کرے اورجہاں کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح معلوم نہ ہو تو کسی بھی ایک کی  رائے پر عمل کیا جاسکتا ہے اگر چہ اس میں آسانی کیوں نہ ہو، البتہ عبادات کے معاملہ میں احتیاط والی رائے پر عمل بہترہےاورمعاملات ومعاشرت سے متعلق مسائل میں آسانی وسہولت پر مبنی رائے پر عمل کی بھی جائز ہے۔

(ج)اگر آپ مکمل پردہ کے ساتھ اور  دین اور عزت کی حفاظت کی شرط کے ساتھ تعلیمی ماحول میں کام کرسکتی ہیں تو اس بارے میں آپ کے لیے جواز کے فتوی پر عمل کی گنجائش ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 48)
ثم اعلم أنه ذكر في التحرير وشرحه أيضا أنه يجوز تقليد المفضول مع وجود الأفضل. وبه قال الحنفية والمالكية وأكثر الحنابلة والشافعية. وفي رواية عن أحمد وطائفة كثيرة من الفقهاء لا يجوز. ثم ذكر أنه لو التزم مذهبا معينا. كأبي حنيفة والشافعي، فقيل يلزمه، وقيل لا وهو الأصح اهـ وقد شاع أن العامي لا مذهب له.
إذا علمت ذلك ظهر لك أن ما ذكر عن النسفي من وجوب اعتقاد أن مذهبه صواب يحتمل الخطأ مبني على أنه لا يجوز تقليد المفضول وأنه يلزمه التزام مذهبه وأن ذلك لا يتأتى في العامي.
وقد رأيت في آخر فتاوى ابن حجر الفقهية التصريح ببعض ذلك فإنه سئل عن عبارة النسفي المذكورة، ثم حرر أن قول أئمة الشافعية كذلك، ثم قال إن ذلك مبني على الضعيف من أنه يجب تقليد الأعلم دون غيره.
والأصح أنه يتخير في تقليد أي شاء ولو مفضولا وإن اعتقده كذلك، وحينئذ فلا يمكن أن يقطع أو يظن أنه على الصواب، بل على المقلد أن يعتقد أن ما ذهب إليه إمامه يحتمل أنه الحق. قال ابن حجر: ثم رأيت المحقق ابن الهمام صرح بما يؤيده حيث قال في شرح الهداية: إن أخذ العامي بما يقع في قلبه أنه أصوب أولى، وعلى هذا استفتى مجتهدين فاختلفا عليه الأولى أن يأخذ بما يميل إليه قلبه منهما. وعندي أنه لو أخذ بقول الذي لا يميل إليه جاز؛ لأن ميله وعدمه سواء، والواجب عليه تقليد مجتهد وقد فعل. اهـ.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 411)
قال في البحر: لأن العامي يجب عليه تقليد العالم إذا كان يعتمد على فتواه

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۴صفر۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب