021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اپنی کچھ جائیداد بعض اولاد کو دینا
74267ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

والد صاحب نے آج سے تقریبا بیس سال پہلے اسی مکان کے گراؤنڈ میں واقع تین دکانیں اپنی حیات میں ہی ساتھ رہنے والے تین بیٹوں کے نام از خود لیز کروا کر قبضے کے ساتھ دے دی تھیں،باقی دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کو ایک سو بیس گز کے پلاٹ لیز شدہ دیئے جو کہ الگ الگ ہیں۔

کیا والد صاحب اپنی حیات میں اپنی کچھ جائیداد اپنی مرضی سے اولاد کے طلب کئےبغیر اپنی بعض اولاد کو دے سکتے ہیں یا نہیں؟

ایک دکان جو کہ بالکل علیحدہ اورنگی نمبر پانچ میں جامع مسجد غوث الاعظم میں ہے،اس کی ملکیت بڑے بیٹے خالد کی ہے،اس میں چھوٹا بھائی کام کرتا تھا،طارق نے وہ دکان خالد بھائی کی اجازت کے بغیر فروخت کردی اور والد صاحب سے ناراضگی بھی مول لی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زندگی میں ہر آدمی کو اپنے مال میں تصرف کا حق حاصل ہوتا ہے،اس لیے والد اگر اپنی مرضی سے زندگی میں اپنی اولاد کو کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں،تاہم چونکہ زندگی میں اپنی جائیداد اپنی اولاد کو دینا ہبہ کے حکم میں ہے اور عام حالات میں اولاد کے درمیان ہبہ میں برابری سے کام لینا چاہیے،لڑکا ہو یا لڑکی سب کو برابر حصہ دینا چاہیے،البتہ کسی معقول وجہ مثلا اولاد میں سے کسی کا زیادہ تنگدست ہونا، زیادہ عیالدار ہونا،بعض کا خدمت گار ہونا اور بعض کا نافرمان ہوناوغیرہ  کی بناء پر کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔

واضح رہے کہ چونکہ زندگی میں جائیداد کی تقسیم ہبہ ہے،اس لیے اس میں یہ بھی ضروری ہے کہ والد اولاد میں سے جس کو جو مال دے وہ اس کے نام کرکے باقاعدہ اس کے قبضے میں بھی دے،کیونکہ اگر صرف نام کروایا اور قبضہ نہیں دیا تو ایسا ہبہ پورانہیں ہوگا اور والد کے انتقال کے بعد ایسا مال بھی میراث کا حصہ بن کر سب ورثہ میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

چونکہ مذکورہ صورت میں آپ کے والد نے جسے جو کچھ دیا اسے قبضہ بھی دے دیا تھا،اس لیے اب وہ جائیداد جو آپ کے والد نے اپنی زندگی میں تقسیم کردی تھی اب میراث میں شامل ہوکر ورثہ میں تقسیم نہیں ہوگی۔

حوالہ جات
"البحر الرائق شرح كنز الدقائق ": (ج 20 / ص 110) :
"يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم، كذا في المحيط.
 وفي فتاوى وفي الخلاصة المختار التسوية بين الذكر والأنثى في الهبة, ولو كان ولده فاسقا فأراد أن يصرف ماله إلى وجوه الخير ويحرمه عن الميراث, هذا خير من تركه؛ لأن فيه إعانة على المعصية، ولو كان ولده فاسقا لا يعطي له أكثر من قوته".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

21/صفر1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب