021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ادھار پر منافع کے ساتھ آگے فروخت کرنے کا حکم
74356خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  زید کے پاس نقد پیسے نہیں ہیں، اس لیے وہ خالد سے کہتا ہے کہ آپ دکاندار کو نقد رقم دے کر آٹا یا چینی وغیرہ خرید کر مجھ پر منافع کے ساتھ ادھار فروخت کر لیں، چنانچہ خالد اس طرح کرتا ہے کہ دکاندار کو نقد قیمت دے کر چیز خرید کر زید پر منافع کے ساتھ ادھار فروخت کرتا ہے۔

آیا یہ عقد شرعا صحیح ہے یا نہیں؟ اگر جائز  ہے تو کیا خالد کی خریدی ہوئی چیز کو زید پر فروخت کرنے سے پہلےاپنے قبضے میں لینا ضروری ہے؟یا دکاندار کے ساتھ معاملہ ہوتے ہی خالد کو اسی دکان سے حوالہ کر سکتا ہے؟

شریعت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یہ عقد مرابحہ ہے۔ اگرتمام شرائط کا خیال رکھا جائے تو عقد کی یہ صورت شرعا   جائز ہے۔ تاہم خالد کا پہلے اس چیز پر قبضہ کرنا ضروری ہے، قبضہ کیے بغیر اس کو آگے فروخت نہیں کر سکتا۔  اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ قبضہ کرنے کے لیے خود بھی موقع پر جا سکتا ہے اور وہاں پر کسی اور کو اپنا وکیل بالقبض بھی بنا سکتا ہے، وہ وکیل قبضہ کرنے کے بعد آگے زید کو بیچ سکتا ہے۔

حوالہ جات
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما یقول: أما الذی نھی عنہ النبي صلی اللہ علیہ وسلم فھو الطعام ان یباع حتی یقبض.  قال ابن عباس: ولا أحسب کل شیئ إلا مثلہ۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر: 2135)
عن ابن عمر رضی اللہ عنھما، أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: "من ابتاع طعاما فلا یبیعہ حتی یستوفیہ. " زاد إسماعیل:" من ابتاع طعاما فلا یبیعہ حتی یقبضہ۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر: 2136)
عن حکیم بن حزام قال: یا رسول اللہ، یاتینی الرجل فیرید منی البیع لیس عندی، أفأبتاعہ لہ من السوق؟ فقال:" لاتبع ما لیس عندک. (سنن أبی داود، حدیث نمبر: 3503)
عن عبداللہ بن عمرو، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:" لا یحل سلف و بیع، ولا شرطان فی بیع ولا ربح ما لم تضمن، ولا بیع ما لیس عندک. (سنن أبی داود، حدیث نمبر3504)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ: لأن للأجل شبها بالمبيع. ألا ترى أنه يزاد في الثمن لأجله، والشبهة ملحقة بالحقيقة،………   لأن الأجل في نفسه ليس بمال، فلا يقابله شيء حقيقة إذا لم يشترط زيادة الثمن بمقابلته قصدا، ويزاد في الثمن لأجله إذا ذكر الأجل بمقابلة زيادة الثمن قصدا، فاعتبر مالا في المرابحة احترازا عن شبهة الخيانة. ( الدر المختار مع رد المحتار،کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ:5/142)
قال الإمام أبوبکر علی الحداد رحمہ اللہ: ومن اشتری شیئا مما ینقل و یحول لم یجز لہ بیعہ حتی یقبضہ. (الجوهرة النيرة: 1/210)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ: (قولہ لبطلان بیع المعدوم) إذ من شرط المعقود علیہ: أن یکون موجودا مالا متقوما مملوکا فی نفسہ، وأن یکون ملک البائع فیما ببیعہ لنفسہ.  (الدر المختار مع رد المحتار:5/58)

عبدالعظیم

دارالافتاء، جامعۃالرشید ،کراچی

29/صفر 1443 ھ        

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالعظیم بن راحب خشک

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب