021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
Jazz cashجیز کیش میں گاہک سے اضافی رقم لینا
74457اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلدلال اور ایجنٹ کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایزی پیسہ اور جیز کیش والے دوکاندار حضرات اگر اپنی فراہم کردہ سہولت پر اپنے طور سے کچھ رقم وصول کریں جبکہ کمپنی کی طرف سے بھی ان کو  کچھ روپے ملتے  ہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ہم نے  یہ سہولت مہیا کی ہے اس لیے اضافی روپے لیتے ہیں :مثال کے طور پر ہزار روپے بھیجنے پر  پانچ روپے لیتے ہیں اور کمپنی جو نفع دے گی وہ اس کے علاوہ ، اس کے ساتھ کمپنی جو کمیشن دے وہ لینا کیسا ہے؟جواب مطلوب ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی متعین شخص یا ادارے کی جانب سے اجرت کے عوض کسی کام پر مامور شخص اجیر کہلاتا ہے، مذکورہ صورت میں ایزی پیسہ اور جیزکیش کے ذریعے رقم کی منتقلی کرنے والا شخص کمپنی کا اجیر ہے ،لہذادوکاندار کا کچھ رقم وصول کریں حلانکہ کمپنی کی طرف سے کمیشن لینا جائز ہے لیکن اس پر گاہک سے اضافی چارجز لینا جائز نہیں ؛کیونکہ دکاندار کمپنی کا اجیر ہے اور کمپنی دکاندار کو ان رقوم کی منتقلی پر اجرت بصورت کمیشن دیتی ہےاور اس بات کا پابند بناتی ہے کہ وہ گاہک سے اجرت نہ لے،لہذاایک عمل پر دوہری اجرت لینا یعنی کمپنی کے علاوہ گاہک سے بھی اجرت لینا درست نہیں ۔

حوالہ جات
قال العلامۃابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ: قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام .( رد المحتار:9/87)
                                                                                                    قال الشیخ تقي العثماني:أن دائرة البرید نتقاضی عمولة من المرسل علی إجراء ہذہ العملیة، فالمدفوع إلی البرید أکثر مما یدفعہ البرید إلی المرسل إلیہ، فکان فی معنی الربا ،ولہذالسبب أفتی بعض الفقہاء فی الماضی القریب بعدم جواز إرسال النقود بہذالطریق، ولکن أفتی کثیر من العلماء المعاصرین بجوازہاعلی أساس أن العمولة التی یتقاضاہاالبرید عمولة مقابل الأعمال الإداریة،من دفع الاستمارة ،وتسجیل المبالغ، وإرسال الاستمارة، أوالبرقیة وغیرہاإلی مکتب البرید فی ید المرسل إلیہ.وعلی ہذ الأساس جوز الإمام أشرف علی التہانوی رحمہ اللہ-إرسال المبالغ عن طریق الحوالة البریدیة.( فقہ البیوع:2/714)
                                                                                   قال العلامۃابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ: لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.(البحرالرائق:5/44)

محمد طلحہ شیخوپوری

دار الافتاء ،جامعۃ الرشید،کراچی

 30   ربیع الاول/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طلحہ بن محمد اسلم شیخوپوری

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب