021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غصہ میں لفظ”فارغ”سے طلاق کا حکم
74392طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

ہماری بستی میں ایک شخص کی منگنی ہوئی،منگنی ہونے کے کچھ عرصہ کے بعد اس آدمی نے لکھ کر طلاق نامہ اپنی منگیترکو بھیج دیااورپھرکچھ عرصہ کے بعد جب ان دونوں میں شادی ہونے لگی توخاندان کے لوگوں نے زورلگایا کہ ان کی کیسے شادی ہوسکتی ہے؟ اس نے تو پہلےہی اس کو طلاق دی ہے، لہذا پھر دوبارہ ان کا نکاح پڑھاکرشادی کردی گئی،کچھ سال گزرنے کے بعدپھر گھر میں میاں بیوی کی لڑائی ہوئی جس میں میاں نے غصے میں بیوی کو مارااورمارنے کے بعد اسے باربارکہا کہ"آپ مجھ سے فارغ ہو" اوراس بات کو سننے والے دوچارگواہ بھی اس وقت موجود تھے،حالات کو دیکھتے ہوئے یہ معاملہ مفتی صاحب کے پاس لایاگیا،مفتی صاحب نے اس مسئلے میں گنجائش رکھتے ہوئے یہ کہاکہ اگرشوہر اس بات پر قسم کھالے کہ اس نے غصے میں ڈرانےدھمکانے کےلیے آپ مجھ سے فارغ ہووالے الفاظ بولے تھے تو اس پر مفتی صاحب نے کہاکہ نکاح نہیں ٹوٹا،محترم جناب اب آپ ہی اس مسئلے کی وضاحت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

منگنی میں اگرنکاح ہوا تھا اوراس نے بلاجبر واکراہ تین طلاق اکٹھی ایک جملے میں لکھ کر دی تھی تویہ عورت اس پرحرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی تھی ،حلالہ کے بغیر اس کےلیے اس کے ساتھ نکاح جائز ہی تھا اس صورت یہ نکاح نہیں ہوانہیں تو لفظ فارغ سے طلاق بھی نہیں ہوگی اوراگرطلاق تین سے کم دی تھی یا متفرق جملوں میں لکھ کر دی تھی تو پہلی طلاق واقع ہوئی،لہذا دوسرا نکاح ہوگیا تھا اس کے بعد جو اس نے غصہ میں لفظ فارغ اپنی بیوی کو کہا ہے اس میں درج ذیل تفصیل ہے۔

سوال میں ذکر کردہ صورت کے مطابق اگر واقعی شخصِ مذکورنے اپنی بیوی کوغصہ میں الفاظ"آپ مجھ سے فارغ ہو "کہے ہیں اور ان الفاظ کو اس کی بیوی نے خود اپنے کانوں سے سنا ہے(نیز اس پر گواہ بھی ہیں جیسے کہ سوال میں درج ہے)  تو اس کا حکم یہ ہے کہ ان الفاظ سے  شخصِ مذکورکی بیوی پر ایک طلاق ِ بائن واقع ہوگئی ہے؛کیونکہ یہ الفاظ ہمارے عرف میں ان کنایاتِ طلاق میں سے ہیں جو صرف جواب کا احتمال رکھتے ہیں،لہٰذا ن الفاظ سے غصے اور مذاکرہ طلاق کے وقت بغیر نیت کے طلاق  بائن واقع ہو جاتی ہے۔ اوردوسری ،تیسری مرتبہ  یہ الفاظ" آپ مجھ سے فارغ ہو "کہنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ طلاق بائن کے ساتھ بائن ملحق نہیں ہوتی۔(کذا فی تبویب دارالعلوم کراچی 1594/53)۔

طلاق بائن کا حکم یہ ہے کہ  شوہر رجوع نہیں کرسکتا،البتہ اب اگر دوبارہ اکھٹے رہنے کا ارادہ ہواوراس سے پہلے تین طلاق مکمل  نہ ہوئے ہوں تو باہمی رضا مندی سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے عوض دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں،نکاح کرنے کی صورت میں آئندہ شوہر کو باقی طلاقوں کا اختیار ہوگا،لہٰذا آئندہ طلاق کے معاملہ میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوگی۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع- (3 / 631)
قال إن قوله خليت في حال الغضب وفي حال مذاكرة الطلاق يكون طلاقا حتى لا يدين في قوله إنه ما أراد به الطلاق.
"الدر المختار " (3/ 301)
"(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية لأنها أقوى لكونها ظاهرة، والنية باطنة".
قال ابن عابدین رحمہ اللہ:"(قوله توقف الأولان) أي ما يصلح ردا وجوابا وما يصلح سبا وجوابا ولا يتوقف ما يتعين للجواب.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 296)
 الكنايات (لا تطلق بها)قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 308)
(لا) يلحق البائن (البائن)
(قوله لا يلحق البائن البائن) المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ما كان بلفظ الكناية لأنه هو الذي ليس ظاهرا في إنشاء الطلاق كذا في الفتح،
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 305)
 وعلمت أن المرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا علمت منه ما ظاهره خلاف مدعاه. اهـ.
البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي - (3 / 323)
(قوله: وفي غيرها بائنةوإن نوى ثنتين وتصح نيته الثلاث) أي في غير الألفاظ الثلاثة وما في معناها تقع واحدة بائنة أو ثلاث بالنية.
(قوله: خلية) من خلت المرأة من مانع النكاح خلوا فهي خلية ونساء خليات وناقة خلية مطلقة من عقالها فهي ترعى حيث شاءت ومنه يقال في كنايات الطلاق هي خلية كذا في المصباح.
والأصل الذي عليه الفتوى في الطلاق بالفارسية أنه إن كان فيه لفظ لا يستعمل إلا في الطلاق فذلك اللفظ صريح يقع بلا نية إذا أضيف إلى المرأة مثل زن رها كردم في عرف أهل خراسان، والعراق بهيم لأن الصريح لا يختلف باختلاف اللغات وما كان بالفارسية يستعمل في الطلاق وغيره فهو من كنايات الفارسية فحكمه حكم كنايات العربية في جميع الأحكام اهـ........... ....

 سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاءجامعۃالرشید

2/4/1443ا

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب