021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وقت پر رقم نہ ادا کرنے کی وجہ سے سودا کینسل کرنا
74442خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

میں (عرفان ولد عبدالکریم) میرے دو عدد کمرشل پلاٹ واقع: ایم اے جناح روڈ، کراچی، پر ہیں، 2013ءمیں بقول والد صاحب ہمارے پلاٹ کی مالیت چھتیس کروڑ روپے تھی، میری عمر تیس سال تھی 2013ء-01-25کو بارہ ربیع الاول جمعہ والے دن میرےمحترم والد صاحب کا انتقال ہوگیا تھا اور اچانک ذمہ داریاں میرے اوپر آگئی تھیں۔

سلیم آکبانی صاحب میرے پاس آئے اور بولا کہ بیٹا میں آپ کے والد صاحب کا دوست ہوں ،آئیں ہم آپ کی جگہ پر یہ تعمیرات کا کام کرتے ہیں اور یہ جگہ بناتے ہیں اور زبانی کلامی میرے ساتھ معاملات کئے اور دو فلور پر گودام اور نیچے تین دکانوں کی با ت کی اور یوں تعمیرات کے حوالے سے سلیم آکبانی سے بات ہوئی، جس کی شکل پیدا ہونے والے حالات کے مطابق ہونی تھی۔

ایک سادہ کاغذ پر سلیم بھائی کے ساتھ ایک دکان اور ایک گودام کی  بکنگ کے سلسلہ میں معاہدہ لکھا گیا، جس پر کسی فریق کے دستخط بھی نہیں ہوئے تھے، اس میں گراؤنڈ فلور پر ایک دکان (جس کا رقبہ 319 اسكوائرفٹ ہوگا) اور پہلی منزل پر ایک گودام (7192اسكوائر فٹ رقبہ پر مشتمل ہو گا) گودام کی قیمت 17980000روپے طے پائی اور دکان کی قیمت ایک کروڑ روپیہ طے ہوئی، یہ بھی طے ہوا تھا کہ قبضہ دیتے وقت مکمل پیمنٹ کر دیں گے، نیز اگرکسی وجہ سے تعمیر کے کام میں تاخیر ہوگئی تو ہم پر کوئی گناہ اور دباؤ نہیں ہو گا، البتہ ہم دانستہ طور پر تاخیر نہیں کریں گے، نیزسلیم بھائی سے یہ بات بھی ہوئی  تھی کہ اگر تعمیرات کا کام مکمل ہونے تک مکمل پلاٹ کا کوئی خریدار آگیا تو مکمل پلاٹ اس کو بیچ دیا جائے گا اور سلیم بھائی ہمیں منع نہیں کریں گے۔

واضح رہے کہ معاہدہ کے وقت کوئی حتمی  قیمت طے نہیں کی گئی تھی، بلکہ اندازہ سے یہ قیمت لکھ دی تھی، اسی لیے اگلے ہی روز  میں نے سلیم صاحب سے کہاتھا کہ میں یہ نہیں کر سکتا،  مجھے تعمیرات کے کام کا تجربہ نہیں ہے اور نہ ہی اس بات کا علم ہے کہ کتنی لاگت آئے گی؟ اور نہ ہی یہ اندازہ کہ کتنا منافع لیا جائے گا؟ تو سلیم صاحب نے کہا عرفان بھائی کوئی بھی ایسا نہیں کرے گا اور نہ ہی آپ ایسا کرو گے کہ جیب سے پیسے بھی دو اور جگہ بھی دو، آپ جو حق اللہ ریٹ بولو گے میں دیندار ہوں اور جیسے ہی جگہ استعمال میں آئے گی اس وقت تمام مکمل پیمنٹ کروں گا۔سب لیز کے حوالے سے سلیم بھائی نے یہ بات کہی تھی کہ آپ جو رقم دوسروں سے لو گے وہی مجھ سے چارج کرنا، بجلی کی بھی اور سب لیز کی بھی۔

کام شروع ہونے کے پندرہ دن بعد سلیم صاحب آئے اور اپنے بھائی کے لیے دوکانوں اور ایک گودام کی بات کی، جن کی قیمت بھی وہی طے کی گئی جو ان کی دکان اور گودام کی طے کی گئی تھی۔ کام کے درمیان ہمیں قانونی اعتبار سے کافی پیچیدگی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ایک قریبی اسکول نے ہمارے خلاف سٹے آرڈر لے لیا، جس کی وجہ سے کام مکمل ہونے میں تاخیر ہوتی گئی، کام مکمل ہونے کے قریب تھا کہ اسی دوران قانونی مسئلہ کی وجہ سے ہمیں سلیم صاحب کو دکانوں اور گوداموں کا قبضہ دینا پڑا، جبکہ تعمیر کا سلسلہ جاری تھا، قبضہ دینے کے وقت سے پہلے سلیم صاحب قسطوں میں ہمیں تین دکانوں کا تین کروڑ اور دو گوداموں کا تین کروڑ ادا  کر چکے تھے، تعمیر جاری ہونے کی وجہ سے ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ اخراجات کتنے ہوں گے؟ ہم نے اپنی مجبوری کے پیشِ نظر رقم لے کر قبضہ دے دیا۔جبکہ ہمارے علاقے میں مارکیٹ ریٹ گیارہ ہزار روپے اسکوائرفٹ ویلیو چل رہی ہے، اس اعتبار سے ایک گودام کی قیمت گیارہ کروڑ اور ایک دکان کی قیمت پینتیس لاکھ روپیہ بنتی ہے، اس طرح ٹوٹل قیمت تقریباً تیئیس کروڑپانچ لاكھ (230500000)  روپیہ بنتی ہے، جبکہ انہوں نے کل چھ کروڑ ادا کرنے کے بعد ابھی تک کچھ نہیں دیا۔

اب سلیم بھائی نہ تو کسی ریٹ پر اتفاق کر رہے ہیں اور نہ ہی سب لیز کی رقم ادا کررہے ہیں، سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں سلیم صاحب کتنی قیمت دینے کے پابند ہیں؟ نیز سب لیز اور دیگر اخراجات کا کیا حکم ہے، جبکہ معاشرے میں وہ بھی خریدار سے وصول کیے جاتے ہیں، میرا کہنا ہے کہ سلیم صاحب نے کہا تھا کہ جگہ استعمال میں آتے ہی تمام پیمنٹ کلیئر کردی جائےگی، جبکہ ایسا نہیں کیا گیا، لہذا سلیم بھائی صرف تین کروڑکی مالیت کے برابر جگہ اپنے پاس رکھیں اور باقی گودام واپس لوٹادیں۔

وضاحت: قبضہ دینے کے بعد جب سلیم صاحب سے قیمت کی بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ آپ جب بھی مکمل اخراجات کا حساب کریں گے تو مجھے بتا دیں، میں آپ کو بقیہ رقم ادا کر دوں گا اور ابھی بھی وہ اس بات کو تسلیم کررہے ہیں کہ میں رقم دوں گا، کسی بھی دو آدمیوں کو بٹھا کر فیصلہ کروا لیں، سائل نے یہ بھی بتایا کہ میں دکانیں اور گودام سلیم صاحب کے نام کروا چکا ہوں۔

اس تمہید کے بعداب سوال یہ ہے کہ

سلیم صاحب سے یہ طے ہوا تھا کہ دکانوں اور گوداموں کا قبضہ لیتے وقت مکمل رقم ادا کر دی جائے گی،  مگر رقم ادا نہیں کی گئی جب کہ معاملات کے مطابق جگہ تیار ہوتے ہی ادائیگی کلیئر کرناطے تھی تو کیا یہ معاملہ کینسل ہوگیایا پھر کِن حالات میں کینسل ہوتے ہیں؟  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں تصریح کے مطابق معاہدہ کرتے وقت صرف یہ طے ہوا تھا کہ سلیم صاحب قبضہ کے وقت مکمل رقم ادا کر دیں گے، رقم نہ ادا کرنے کی صورت میں سودا کینسل ہونے کی بات نہیں ہوئی تھی، لہذا ایسی صورت میں قبضہ کے وقت مکمل رقم نہ ادا کرنے سے سودا ختم نہیں ہوا، نیز اگر معاہدہ کے وقت یہ بات طے ہوتی کہ اگر قبضہ کے وقت مکمل رقم نہ ادا کی گئی تو سودا کینسل ہو جائے گا تو اس صورت میں بھی رقم نہ ادا کرنے کی وجہ سے معاہدہ راجح قول کے مطابق ختم نہ ہوتا، بلکہ فاسد ہو جاتا، جس کو ختم کرنا فریقین کے ذمہ لازم ہوتا، جبکہ سوال میں ذکرکیا گیا معاملہ پہلے ہی فاسد ہے، اس لیے اس شرط لگانےکا کوئی فائدہ ظاہر نہ ہوتا۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (3/ 39) دار الفكر،بيروت:
إذا باع على أنه إن لم ينقد الثمن إلى ثلاثة أيام فلا بيع بينهما فالبيع جائز وكذا الشرط هكذا ذكر محمد - رحمه الله تعالى - في الأصل وهذه المسألة على وجوه إما أن لم يبين الوقت أصلا بأن قال على أنك إن لم تنقد الثمن فلا بيع بيننا أو بين وقتا مجهولا بأن قال على أنك إن لم تنقد الثمن أياما وفي هذين الوجهين العقد فاسد وإن بين وقتا معلوما إن كان ذلك الوقت مقدرا بثلاثة أيام أو دون ذلك فالعقد جائز عند علمائنا الثلاثة رحمهم الله تعالى وإن بين المدة أكثر من ثلاثة أيام قال أبو حنيفة - رحمه الله تعالى - البيع فاسد وقال محمد - رحمه الله تعالى - البيع جائز كذا في المحيط فإن نقد في الثلاث جاز في قولهم جميعا كذا في الهداية۔
مجلة الأحكام العدلية (ص: 63)  (المادة: 313، 314)  نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:
الفصل الثالث في حق خيار النقد: إذا تبايعا على أن يؤدي المشتري الثمن في وقت كذا وإنلم يؤده فلا بيع  بينهما صح البيع وهذا يقال له خيار النقد. إذا لم يؤد المشتري الثمن في المدة المعينة كان البيع الذي فيه خيار النقد فاسدا.
شرح الجلة لمحمد خالد الأتاسي(ج:2ص:257) مكتبة رشيدية:
وفي البحر عن غاية البيان أن أبا يوسف مع الإمام في قوله الأول، والذي رجع إليه أنه مع محمد، وقد اختارت جمعية المجلة قول محمد رحمه الله مراعاة لمصلحة الناس في هذا الزمان۔
شرح الجلة لمحمد خالد الأتاسي(ج:2ص:257) مكتبة رشيدية:
(المادة 314) : إذا لم يؤد المشتري الثمن في المدة المعينة كان البيع الذي فيه خيار النقد فاسدا.
قال محمد خالد الأتاسي: أي لا منفسخا كما يقتضيه ظاهر هذا الشرط لقوله "فلا بيع بينهما" قال في الخانية ولومضت الثلاثة ولم ينقده أشار في المأذون إلى أنه ينفسخ البيع والصحيح أنه يفسد ولاينفسخ ، حتي لو أعتقه المشتري بعد الأيام الثلاثة ، نفذ، إن كان في يده وعليه قيمته، لاإن كان في يد البائع اھ، وهذا أى فساد البيع إذا لم يؤد المشتري الثمن  في المدة المعينة۔ 
شرح الجلة لعلی حیدر(ج:1ص:310) (المادة 314) دار الجيل:
إذا لم يؤد المشتري الثمن في المدة المعينة كان البيع الذي فيه خيار النقد فاسدا. المراد من المدة المعينة ما يعينه الطرفان في عقد البيع فإذا أدى المشتري الثمن إلى البائع في تلك المدة أصبح البيع صحيحا ولازما أما إذا لم يؤد المشتري الثمن في تلك المدة بقي المبيع على حاله فالبيع الذي ينعقد بخيار النقد لا ينفسخ بل يكون فاسدا وإذا كان المبيع في يد المشتري وباعه
بعد مرور المدة أو وهبه وسلمه آخر كان تصرفه نافذا ويضمن المشتري بدله إلى البائع. أما إذا لم يكن المبيع في قبضته فتصرفه لا يكون نافذا ۔

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

/6ربیع الثانی 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب