021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سودی بنک میں (H.R)کی ملازمت کی آمدن
74455اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلملازمت کے احکام

سوال

مجھے یہ پوچھنا تھا کہ میں  اپنے بیٹے کے رشتے کے لیے گئی تھی،لڑکی کے والد صاحب M.C.B   بینک میں H.R میں کام کرتے ہیں ،ان کی آمدنی حلال ہے یا حرام ؟میں ایسی جگہ پر رشتہ کروں یا نہیں؟

نوٹ:ہیڈ آفس میں ہوتے ہیں ،اسلامک اور کمرشل دونوں کی ذمہ داری ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(H.R)         ہیومن ریسورسز کے شعبہ کو مختلف ذمہ داریا ں  سر انجام دینی ہوتی ہیں  :

1- ادارہ کے مختلف شعبوں کے لیے معیار کے مطابق نئے افراد بھرتی کرنا ۔

2-ملازمین کی تنخواہیں  تقسیم کرنا ۔

3- ضابطے کے مطابق ملازمین کا اخراج کرناوغیرہ۔

لہذا کسی بھی سودی بینک کے (H.R) کے شعبے میں ملازمت  کرنے میں تفصیل یہ ہے کہ غیر سودی برانچز کے لیے اِیچ  ا ٓر کی تمام خدمات   حلال ہیں ،جبکہ سودی بینک کے اندر جو جائز امور ہیں ، ان کے لیے کسی کا تقرر کرنا اور دیگر خدمات فراہم کرنا جائز ہے اور اس کی تنخواہ بھی حلال ہے ۔ اور بینک کے جو شعبے صرف سودی کام یا اس کی تشہیر و ترغیب ودی کے لیکے لیے مختص ہیں ،ان کے لیے خدمات فراہم کرنا  جائز نہیں  اور اس پرجتنا وقت خرچ ہوتا ہے ، اس کے بقدر تنخواہ  ناجائز ہو گی ؛کیونکہ  جو شعبے صرف سودی کاموں کے لیے مقرر ہیں ، ان کے لیے افراد کا انتخاب اور دیگر معاملات کی دیکھ بھال کرنا معصیت  میں تعاون ہے جو کہ  جائز نہیں ۔

 لہذا اگر لڑکی کے والد کی غالب آمدنی حلال ہو تو نکاح کرنے کی گنجائش ہے، البتہ اگر غالب آمدن  حرام ہو تو ایسے رشتے کی جگہ حلال آمدن والے گھرانے میں رشتہ کرنا بہتر ہوگا۔کیونکہ رشتہ داری کے بعد دونوں خاندانوں کے قریبی مراسم ہو جاتے ہیں ،ایک دوسرے کی دعوتیں کی جاتی ہیں اور ہدایا پیش کیے جاتے ہیں ؛لہذا حرام آمدنی والے گھرانے میں رشتہ داری سے آئندہ چل کر کئی قسم کے مسائل کا سامنا رہے گا۔ جن سے بچنے کی یہی صورت ہے کہ کسی حلال آمدن والے گھرانے میں بچے کا رشتہ کیا جائے۔

حوالہ جات
عن جابر قال: لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم آکل الربا، وموکله، وکاتبه، وشاهدیه، وقال: هم سواء. (الصحيح لمسلم با ب لعن آکل الربا، ومؤکله:2/27)
قال العلامۃابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ: قال - رحمه الله - (ولا يجوز على الغناء والنوح والملاهي) ؛ لأن المعصية لا يتصور استحقاقها بالعقد فلا يجب عليه الأجرة من غير أن يستحق عليه؛ لأن المبادلة لا تكون إلا عند الاستحقاق.(البحر الرائق:8/23)
قال العلامہ الحصکفیؒ: (لا تصح الإجارة لعسب التيس) وهو نزوه على الإناث (و) لا (لأجل المعاصي مثل الغناء والنوح والملاهي).(ردالمحتار:6/55)
وفی الفتاوی الھندیۃ:ولا تجوز الإجارة على شيء من الغناء والنوح والمزامير والطبل وشيء من اللهو وعلى هذا الحداء وقراءة الشعر وغيره ولا أجر في ذلك وهذا كله قول أبي حنيفة وأبي يوسف ومحمد رحمهم الله تعالى. كذا في غاية البيان.( الفتاوی الھندیۃ:4/449)

محمد طلحہ شیخوپوری

دار الافتاء ،جامعۃ الرشید،کراچی

5 ربیع الثانی /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طلحہ بن محمد اسلم شیخوپوری

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب