021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہر بیوی کے پاس نہیں جاتا اور نہ ہی حقوق زوجیت ادا کرتا ہے تو تفریق ہو سکتی ہے یا نہیں جبکہ شوہر عنین بھی نہ ہو؟﴿جدید فتوی﴾
74498طلاق کے احکاموہ اسباب جن کی وجہ سے نکاح فسخ کروانا جائز ہے

سوال

میں اپنا مسئلہ یہاں لکھ رہی ہوں اور آپ لو گوں سے درخواست کرتی ہوں کہ  شریعت کی روشنی میں  مجھے اپنے مسئلے کا حل بتادیں۔اپنی تحریر  کے اختتام پر میں اپنا نام ، پتہ ، ایڈریس اور فون نمبر لکھ دوں گی۔

میں اپنے پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہوں اور MPhil  بھی کیا ہوا ہے، یہاں میں آپ لوگوں کے سامنے  اپنی ازدواجی زندگی کے حوالے سے اپنا مسئلہ لکھ رہی ہوں ۔ میری شادی نومبر 2020 میں ارسلان نای لڑکے سے ہوئی ، میری بڑی بہن بھی اسی گھر میں بیاہی گئی ہے ، اس کی شادی کو چھ سات سال ہوگئے ہیں اور دو بیتے ہیں۔ میری شادی کے دن سے لے کر اب تک میرےا ور ارسلان کے درمیان ازدواجی تعلق قائم نہیں ہوا، یعنی انہوں نے آج تک حق زوجیت ادا نہیں کیا۔ شادی  کے کچھ عرصے بعد تک  تو ارسلان کا رویہ میرے ساتھ صحیح تھا، لیکن پھر تقریباً اپریل کے مہینے سے ان کا رویہ میرے ساتھ کافی خراب رہنے لگا ۔ میرے سسرال میں مشترکہ خاندانی نظام  ہے۔ ارسلان کے رویے کی خرابی میں یہ تھا کہ وہ مجھے بالکل نظر انداز کرنے لگے ۔ کوئی بات چیت نہیں کرتے ، پوچھتے تک نہیں کہ کچھ چاہیے یا کسی چیز کی ضرورت ہے۔بالکل لاتعلق ہوگئے مجھ سے۔ میرے ساتھ بہت چڑچڑے سے رہنے لگے۔ رمضان میں ان کے رویے میں بہت تلخی  آگئی، پورے گھر والوں سے بات چیت کرتے تھے، صرف میرا بائیکاٹ کیا ہو اتھا ۔ پورا پورا دن کمرے میں نہیں آتے ۔ رات میں بھی اچھا خاصا وقت چھت پر گزارتے ، اپنے بھتیجوں  وغیرہ کے ساتھ۔ارسلان کے اس رویہ کی شکایت میں نے ان کی امی سے بھی کی تو انہوں نے کہا کہ ہم سمجھائیں گے، ان کی امی اور بڑے بھائی سمجھا تو رہے تھے لیکن ان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔پورا  رمضان ارسلان کا یہی  رویہ برقرار رہا اور اس رویہ کی وجہ سے میں کافی ذہنی تناؤکاشکار رہتی تھی یہاں تک کے ذہنی مریض بننے لگی، میرے اور ارسلان کے درمیان کوئی بحث و مباحثہ یا لڑائی جھگڑا  بھی نہیں ہوا تھا پھر بھی ان کا رویہ اتنا خراب تھا۔۔۔

ہم لوگوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ اس شادی کے لیے تیار نہیں تھے،گھر والوں کے دباؤ میں آکر شادی کرلی ،ان کی امی اور بہن نے رشتہ بھیجا تھا ،ہماری  طرف سے پہل نہیں ہوئی تھی۔ایک دن میں نے سنا کہ ارسلان اپنی بہن سے نکاح نامے کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ یہ میری بربادی کا سرٹیفیکٹ ہے۔

عید کے دوسرے دن میں اپنی امی کے گھر آگئی، میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے، میں بہت زیادہ stress  میں تھی، میرا اپنے سسرال جانے کا بالکل دل نہیں چاہ رہا تھا، کیوں کہ مجھے اندازہ تھا کہ وہ بہتر نہیں ہوں گے، خیر میں نے اپنی امی کے گھر آنے کے ایک ہفتے کے بعد ارسلان سے کہا کہ آنا چاہتی ہوں تو کہتے ہیں:"  وہیں رہو کوئی ضرورت نہیں آنے کی،میں تو تمہاری شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتا" ۔ میں تقریباً ۴ مہینے سے اپنی امی کے گھر ہوں ،ایک دفعہ بھی ارسلان نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا ، میں نے کئی دفعہ کہا کہ میں آنا چاہتی ہوں تو ہر دفعہ مجھے منع کردیا  اور کہا کہ وہیں رہو کوئی ضرورت نہیں آنے کی ۔

(میرے گھر والوں کی طرف سے مختلف اوقات میں لوگ ارسلان کے گھر والوں سے اس معاملے سے متعلق ملنے کے لیے گئے ، یہاں تک کہ یہ آفر بھی کی کہ مہر واپس لے لیں اور طلاق دے دیں لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا،اس بات کو بھی ڈیڑھ مہینے  ہوگئے ہیں۔ان ۴ مہینوں میں نان نفقہ بھی نہیں دیا اور جب تک ان کے ساتھ تھی تو نان نفقہ تو دیتے تھے لیکن حق زوجیت ادا نہیں کرتے تھے اور رویہ کی تفصیل اوپر ذکر کردی بالتفصیل)

اس تفصیل کی روشنی میں کیا ہم(عدالت  کے ذریعے ) خلع لے سکتے ہیں؟

تنقیح: سائلہ نے فون پر بتایا ہے کہ یہ تحقیق نہیں ہے کہ شوہر جماع پر قادر ہے یا نہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

     

              صورت مسؤولہ میں اگر بیوی اپنے شوہر سے علیحدگی چاہتی ہے تو شوہر کو طلاق دینے پر کسی طرح راضی کرے ، اگر وہ طلاق کے لیے راضی نہ ہو تو خلع کا مطالبہ کرے ، اگر شوہر خلع دینے کے لیے بھی تیار نہ ہو،اپنی بیوی کے حقوق کی ادائیگی کے لیے بھی تیارنہ ہو اور نہ ہی بیوی کو رکھنا چاہتا ہو اور بیوی بہرحال علیحدگی چاہتی ہو تو ایسی صورت میں عدالت کے ذریعے نکاح فسخ کرواسکتی ہے، جس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ عورت عدالت میں فسخ نکاح کا دعویٰ دائر کرے کہ میرا شوہر حق زوجیت ادا نہیں کرتا نہ ہی مجھے رکھنا چاہتا ہے اور نہ ہی طلاق یا خلع دیتا ہے۔عدالت معاملے کی تحقیق کے بعد شوہر سے اپنی بیوی کے حقوق ادا کرنے اور ساتھ رکھنے کا مطالبہ کرے،اگر شوہر اس پر راضی نہ ہو تو طلاق یا خلع دینے کا مطالبہ کرے، اگر شوہر طلاق یا خلع دینے کے لیے بھی راضی نہ ہو تو عدالت شوہر کے اس تعنت(ہٹ دھرمی) کی وجہ سے نکاح فسخ کرسکتی ہے۔فسخ نکاح کے بعد بیوی عدت گزارے اور عدت گزارنے کے بعد کسی دوسری جگہ نکاح کر لے۔

 

وضاحت:

۱۔اگر کوئی شخص عنین(Not able to intercourse) نہ ہو، لیکن اس کے باوجود اپنی بیوی سے جماع کے لیے تیار نہ ہو تو کتنی مدت اس طرح رہنے کی وجہ سے بیوی کو خلع یا فسخ نکاح کا اختیار ملتا ہے ، اس حوالے سے صریح جزئیہ فقہ حنفی و مالکی وغیرہ میں نہیں مل سکا، البتہ مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ  کے منسلکہ فتویٰ میں اور دار العلوم کراچی کے ایک فتویٰ کے مطابق مذکورہ صورتِ مسئلہ سے ملتی جلتی صورت میں، اگر شوہر طلاق یا خلع کے لیے راضی نہ ہو تو عدالت کے ذریعے فسخ نکاح کی اجازت ہے۔

  ۲۔مذکورہ صورت میں عدالت کو فسخ نکاح کا اختیار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ فقہاء کرام کی تصریحات کے مطابق جماع عورت کا حق ہے اور اگر شوہر اس حق کو ادا نہ کرے تو بیوی کے مطالبے پر قاضی نکاح فسخ کرسکتا ہے۔اسی طرح فقہاء مالکیہ رحمہم اللہ نے ضرر  کی وجہ سے بھی بیوی کو طلاق لینے کا اختیار دیا ہے اور ضرر کی تفصیل میں ترک جماع اورقطع کلامی وغیرہ کو ذکر کیا ہے۔

۳۔تیسری بات یہ ہے کہ کم از کم ایک مرتبہ جماع تو حنفیہ کے ہاں بھی عورت کا حق ہے،اور یہ حق بھی شوہر نے ادا نہیں کیا اور نہ ہی اس کی ادائیگی کے لیے راضی ہے۔

حوالہ جات
التاج والإكليل لمختصر خليل (5/ 265)    
(ولها التطليق بالضرر ولو لم تشهد البينة بتكرره) ابن سلمون: إذا ثبت للمرأة أن زوجها يضربها وهي في عصمته فقيل لها أن تطلق نفسها كما تفعل إذا كان ذلك شرطا. وقيل: ليس لها أن تطلق نفسها حتى يشهد بتكرر الضرر.
انظر بعد هذا قول مالك من باع زوجته طلقت عليه، وانظر إذا كان لها شرط في الضرر.
قال في السليمانية: إذا قطع الرجل كلامه عن زوجته أو حول وجهه عنها في فراشها فذلك من الضرر بها ولها الأخذ بشرطها.
وقال المتيطي: إذا ثبت أنه يضر بزوجه وليس لها شرط فقيل إن لها أن تطلق نفسها وإن لم تشهد البينة بتكرار الضرر.
قال: ويستوي على القول الأول من شرط الضرر ومن لم يشترط.
قال مالك: من يريد العبادة أو ترك الجماع لغير ضرر ولا علة قال له إما وطئت أو طلقت. وعليهما الإصلاح وإن تعذر فإن أساء الزوج طلقا بلا خلع وبالعكس ائتمناه عليها أو خالعا له بنظرهما) ابن شاس: الذي على الحكمين أن ينظر فإن قدرا على الإصلاح أصلحا وإن لم يقدرا نظرا فإن رأيا الإساءة من قبل الزوج فرقا بينهما، وإن كانت من قبل المرأة ائتمناه عليها، وإن رأيا صلاحا أن يأخذا له منها شيئا ويطلقاها عليه فعلا (وإن أساءا فهل يتعين الطلاق بلا خلع أو لهما أن يخالعا بالنظر وعليه الأكثر تأويلان) من المدونة قال ربيعة: يجوز بغرم على المرأة إن كان الظلم منها.
أبو عمران: هذا وفاق ويكون معنى إضراره بها أي بدعواها. ابن يونس: قال بعض الشيوخ: لا يعطي شيئا إن كان الضرر من قبلهما معا (وأتيا الحاكم فأخبراه) المتيطي: إذا أكمل الحكمان حكمهما أتيا إلى السلطان فأخبراه بمحضر شهيدي عدل ما اطلعا عليه من أمورهما وما أنفذاه من حكمهما (ونفذ حكمهما) الباجي: حكمهما على وجه الحكم لا الوكالة فينفذ وإن خالف مذهب من بعثهما.
شرح مختصر خليل للخرشي (4/ 9)
ولها التطليق بالضرر ولو لم تشهد البينة بتكرره (ش) يعني أنه إذا ثبت بالبينة عند القاضي أن الزوج يضارر زوجته وهي في عصمته ولو كان الضرر مرة واحدة فالمشهور أنه يثبت للزوجة الخيار فإن شاءت أقامت على هذه الحالة وإن شاءت طلقت نفسها بطلقة واحدة بائنة لخبر «لا ضرر ولا ضرار» فلو أوقعت أكثر من واحدة فإن الزائد على الواحدة لا يلزم الزوج، ومن الضرر قطع كلامه عنها، وتحويل وجهه عنها، وضربها ضربا مؤلما لا منعها الحمام أو تأديبها على الصلاة والتسري، والتزوج عليها وكلام المؤلف إذا أرادت الفراق فلا ينافي قوله وبتعديه زجره الحاكم لأن ذلك إذا أرادت البقاء وظاهر قوله ولها إلخ أنه يجري في غير البالغين ثم إنه يجري هنا هل يطلق الحاكم أو يأمرها به ثم يحكم به قولان.
(۱)البناية شرح الهداية (5/ 490)
لأنه مانع حقها في الجماع، فينوب القاضي منابه في التسريح كما في الجب والعنة. ولنا أنه ظلمها بمنع حقها فجازاه الشرع بزوال نعمة النكاح عند مضي هذه المدة، وهو المأثور عن عثمان، وعلي، والعبادلة الثلاثة،
•---------------------------------•
[البناية]
م: (لأنه) ش: أي لأن المولي م: (مانع حقها في الجماع) ش: أي ثبوت الإيلاء بقصده الإضرار والتعنت منع حقها في الجماع م: (فينوب القاضي منابه في التسريح) ش: بالإحسان م: (كما في الجب والعنة) ش: أي ينوب القاضي منابه في التفريق فيما إذا وجدت زوجها مجبوبا أو عنينا. وجه القياس: دفع الضرر عنها عند فوت الإمساك بالمعروف.
م: (ولنا أنه ظلمها بمنع حقها) ش: والمستحق عليه وهو الوطء في المدة م: (فجازاه الشرع بزوال نعمة النكاح عند مضي هذه المدة) ش: تخليصا لها عن ضرر التعليق ولا يجعل التخلص بالرجعي فوقع بائنا، ولأن الإيلاء كان طلاقا بائنا على الفور في الجاهلية، بحيث لا يقربها الزوج بعد الإيلاء أبدا فجعله الشرع مؤجلا بقوله تعالى: {تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ} [البقرة: 226] إلى انقضاء المدة، فحصلت الإشارة إلى أن الواقع بالإيلاء بائن لكنه مؤجل.
(۲)المبسوط للسرخسي (6/ 5)
والإيلاء الذي انضم إليه معنى قطع الإمساك بالمعروف على وجه الإضرار والتعنت فكذلك الطلاق مباح الإيقاع إلا إذا انضم إليه معنى محرم وهو الإضرار بها بتطويل العدة عليها إذا طلقها في حالة الحيض.
(۳)المبسوط للسرخسي (7/ 20)
لأن ثبوت حكم الإيلاء بقصده الإضرار والتعنت بمنع حقها بالجماع،
(۴)المبسوط للسرخسي (7/ 20)
(والفصل الثاني) أن الفرقة عنده، لا تقع إلا بتفريق القاضي بينهما أو بإيقاع الزوج الطلاق؛ لأن الله تعالى قال: {وإن عزموا الطلاق فإن الله سميع عليم} [البقرة: 227]. وهو إشارة إلى أن عزيمة الطلاق بما هو مسموع وذلك بإيقاع الطلاق أو تفريق القاضي، والمعنى فيه أن التفريق بينهما لدفع الضرر عنها عند فوت الإمساك بالمعروف، فلا يقع إلا بتفريق القاضي كفرقة العنين، فإن بعد مضي المدةهناك لا تقع الفرقة إلا بتفريق القاضي بل أولى؛ لأن الزوج هناك معذور وهنا هو ظالم متعنت، والقاضي منصوب لإزالة الظلم فيأمره أن يوفيها حقها، أو يفارقها، فإن أبي ناب عنه في إيقاع الطلاق وهو نظير التفريق بسبب العجز عن النفقة على قوله.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 202)
ويسقط حقها بمرة ويجب ديانة أحيانا.ولا يبلغ الإيلاء إلا برضاها، ويؤمر المتعبد بصحبتها أحيانا، وقدره الطحاوي بيوم وليلة من كل أربع لحرة وسبع لأمة. ولو تضررت من كثرة جماعه لم تجز الزيادة على قدر طاقتها، والرأي في تعيين المقدار للقاضي بما يظن طاقتها نهر بحثا.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 203)
وبه علم أنه كان على الشارح أن يقول ويسقط حقها بمرة في القضاء أي لأنه لو لم يصبها مرة يؤجله القاضي سنة ثم يفسخ العقد. أما لو أصابها مرة واحدة لم يتعرض له لأنه علم أنه غير عنين وقت العقد، بل يأمره بالزيادة أحيانا لوجوبها عليه إلا لعذر ومرض أو عنة عارضة أو نحو ذلك وسيأتي في باب الظهار أن على القاضي إلزام المظاهر بالتكفير دفعا للضرر عنها بحبس أو ضرب إلى أن يكفر أو يطلق وهذا ربما يؤيد القول المار بأنه تجب الزيادة عليه في الحكم فتأمل (قوله ولا يبلغ مدة الإيلاء) تقدم عن الفتح التعبير بقوله ويجب أن لا يبلغ إلخ. وظاهره أنه منقول، لكن ذكر قبله في مقدار الدور أنه لا ينبغي أن يطلق له مقدار مدة الإيلاء وهو أربعة أشهر، فهذا بحث منه كما سيذكره الشارح فالظاهر أن ما هنا مبني على هذا البحث تأمل، ثم قوله وهو أربعة يفيد أن المراد إيلاء الحرة، ويؤيد ذلك أن عمر - رضي الله تعالى عنه - لما سمع في الليل امرأة تقول: فوالله لولا الله تخشى عواقبه لزحزح من هذا السرير جوانبه فسأل عنها فإذا زوجها في الجهاد، فسأل بنته حفصة: كم تصبر المرأة عن الرجل: فقالت أربعة أشهر، فأمر أمراء الأجناد أن لا يتخلف المتزوج عن أهله أكثر منها، ولو لم يكن في هذه المدة زيادة مضارة بها لما شرع الله تعالى الفراق بالإيلاء فيها.

محمد حمزہ سلیمان

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

07/ربیع الثانی 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / فیصل احمد صاحب / مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب / شہبازعلی صاحب