021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اگرکسی کا بیٹا ، بیٹی یا بیوی فوت ہوجائے تو میراث میں ان کے حصے کا حکم
72474میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

اگر کسی شخص کا کوئی بیٹا ،بیٹی یا بیوی فوت ہوجائے تو وراثت میں ان کابھی حصہ ہوگا؟اگر ہوگا تو کتنا ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بیٹا یا بیٹی فوت ہونے کی صورت میں والدکا انکےترکہ  میں حصہ:

  1. اگر بیٹا یا بیٹی فوت ہوجائے اور ان کی اولاد نہ ہوں،تواس صورت میں والد عصبہ ہونے کی وجہ سےان کا کل مال لے لیں گے۔
  2. اگر انکی اولاد تو ہوں لیکن صرف نرینہ ہوں تو اس صورت میں والد کو ان کے کل مال کا چھٹا حصہ یعنی کل مال کا16.6667%ملے گا۔
  3. اگر انکی اولاد میں نرینہ ومادہ دونوں  ہوں تو اس صورت میں  بھی والدکو ان کے کل مال کا چھٹا حصہ یعنی کل مال کا 16.6667% ملے گا۔
  4. اگر انکی صرف مادہ اولاد ہوں ،نرینہ اولاد کوئی نہ ہوں تو اس صورت میں انکے والد کو ان کے کل مال کا چھٹا حصہ یعنی16.6667% بھی ملے گا اور عصبہ ہونے کی وجہ سے جو مال بچ جائے وہ بھی لے گا۔

بیوی فوت ہونے کی صورت میں شوہر کا اس کے ترکہ میں حصہ:

اگر بیوی فوت ہوجائے اور اسکی اولاد میں سے کوئی بھی زندہ نہ ہوں تو اس صورت میں شوہر کو اس کے کل مال کا آدھا  حصہ ملے گا یعنی 50% حصہ شوہر کو ملے گا۔

اور اگر بیوی کی اولاد ہو,چاہے اسی شوہر سے ہو یا دوسرے شوہر سے تو اس صورت میں شوہر کو اس کے کل مال کا چوتھا حصہ یعنی  25% حصہ ملے گا۔

حوالہ جات
{وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ } [النساء: 12]
تفسير روح المعاني (2/ 438)
وَلَكُمْ نِصْفُ ما تَرَكَ أَزْواجُكُمْ إن دخلتم بهن أولا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ ذكرا كان أو أنثى واحدا كان أو متعددا، منكم كان أو من غيركم، ولذا قال سبحانه: لَهُنَّ ولم يقل لكم، ولا فرق بين أن يكون الولد من بطن الزوجة، وأن يكون من صلب بنيها أو بني بنيها إلى حيث شاء الله تعالى۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 558)
قال رحمه الله (فللأب السدس مع الولد وولد الابن) لقوله تعالى {ولأبويه لكل واحد منهما السدس مما ترك إن كان له ولد} [النساء: 11]
وجميع أحوال الأب في الفرائض ثلاثة أحدها الفرض المطلق وهو السدس وذلك مع الابن أو ابن الابن، وإن سفل لما تلونا والحالة الثانية الفرض والتعصيب وذلك مع البنت أو بنت الابن الفرض بما تلونا والتعصيب لما روينا والحالة الثالثة التعصيب المطلق وذلك إذا لم يكن للميت ولد ولا ولد ابن لقوله تعالى {فإن لم يكن له ولد وورثه أبواه فلأمه الثلث} [النساء: 11]
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (6/ 233)
قال رحمه الله (وللزوج النصف ومع الولد أو ولد الابن وإن سفل الربع) لقوله تعالى {ولكم نصف ما ترك أزواجكم إن لم يكن لهن ولد فإن كان لهن ولد فلكم الربع مما تركن} [النساء: 12] فيستحق كل زوج إما النصف، وإما الربع مما تركت امرأته، ولفظ الولد يتناول ولد الابن فيكون مثله بالنص أو بالإجماع على ما بيناه من قبل فيكون له الربع معه فصار للزوج حالتان النصف والربع.

وقاراحمد

دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

۱۲رجب ۱۴۴۲

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

وقاراحمد بن اجبر خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب