021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مالی جرمانے کا حکم
74761حدود و تعزیرات کا بیانتعزیر مالی کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ  کرام  اس مسئلہ  کے بارے میں کہ ایک کالج میں استاذ نے ایک ٹیم بنائی ہے،جوبارہ بندوں پر مشتمل ہے ان کا کام یہ ہے کہ جو بھی سٹوڈنٹ بغیر یونیفارم کے کالج آئے گا ان سے جرمانہ وصول کریں گے ،یا جو کلاس میں لیٹ آئے یا جو کلاس میں موبائل استعمال کرے تو یہ ٹیم ان سے جرمانہ وصول کرتی ہے،اور اپنے پاس حساب بھی لکھ لیتی ہے،اور کبھی کبھا راستاذ اس ٹیم والوں  سے یہ کہتے ہیں کہ جرمانے کے جو پیسے جمع ہوئے ہیں اس میں سے کچھ پیسے لے کر  آپ جو بارہ آدمی ہیں اپنے لیے کوئی چیز لا کر کھاؤ۔1-اب کیا یہ جرمانہ لینا جائز ہے؟2- ان لڑکوں کا جرمانے کے پیسوں سے کوئی چیز کھانا جائز ہے؟3- اگر یہ نا جائز اور گناہ ہے تو کیا اس گناہ میں وہ بارہ لڑکوں پر مشتمل ٹیم بھی شامل ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  1. فقہ حنفی کے راجح قول کے مطابق  مالی جرمانہ عائد کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ لہذ اطلبہ کی غیر حاضری یا کسی اور وجہ سے بطور سزا زجراً وتنبیہاً کسی بھی صورت میں ان پر مالی جرمانہ لینا یا  وصولی کی صورت میں اسے خرچ کرنا یا استعمال میں لانا  جائز نہیں،  اس سے اجتناب کرنالازم ہے، اور اس رقم کو واپس لوٹانا واجب ہے۔
  2.   لڑکوں کی اس رقم  سے کچھ کھا نا پینا جائز نہیں ۔
  3. جی ہاں یہ ٹیم گناہ پر تعاون کی بنیاد پر گناہ گار ہوگی۔
حوالہ جات
قال العلامۃابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ:مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه. (ردالمحتار:4/61)
قال العلامۃابن نجیم  رحمۃ اللہ علیہ:ولم يذكر محمد التعزير بأخذ المال وقد قيل روي عن أبي يوسف أن التعزير من السلطان بأخذ المال جائز كذا في الظهيرية وفي الخلاصة سمعت عن ثقة أن التعزير بأخذ المال إن رأى القاضي ذلك أو الوالي جاز ومن جملة ذلك رجل لا يحضر الجماعة يجوز تعزيره بأخذ المال اهـ.
وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي...والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال.
(البحر الرائق:5/44)

محمد طلحہ شیخوپوری

دار الافتاء ،جامعۃ الرشید،کراچی

 28ربیع الثانی/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طلحہ بن محمد اسلم شیخوپوری

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب