021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوہ کا مرحوم شوہر کا ترکہ کسی ایک وارث کو دینا جائز نہیں
74730میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

مرحوم خان صاحب نے ایک 120 گز زمین لی تھی، جو ان کی وفات کے بعد ان کی زوجہ محترمہ خانم صاحبہ کے نام ٹرانسفر کر دی گئی، ان کی اولادوں میں ماشاءاللہ 9 بیٹے اور ایک بیٹی ہے، سب کے سب شادی شدہ ہیں۔سوال یہ ہےکہ خانم صاحبہ جو کہ ماشاءاللہ حیات ہیں ، اپنی یہ زمین اپنی ایک بیٹی کو ہدیہ کرنا چاہتی ہیں ۔  تو کیا یہ طریقہ شرعی احکام کے مطابق ہے ؟ جبکہ ہمیں گمان ہے کہ یہ زمین وراثت کے حساب سے 9 بیٹوں اور ایک بیٹی میں تقسیم ہونی چاہئے،  رہنمائی فرما دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں اگر خان صاحب نے یہ زمین اپنی ذات کے لیے خریدی تھی تو اس صورت میں یہ زمین ان کا ترکہ تھا، لہذا  ان کی وفات کے بعد یہ زمین ان کے تمام ورثاء کے درمیان شرعی حصوں کے مطابق تقسیم  کرنا ضروری تھا، کیونکہ شرعی اعتبار سے بیوہ اپنے شوہر مرحوم کے کل ترکہ میں سے صرف آٹھویں حصے کی حق دار تھی، نیز حکومتی کاغذات میں زمین ٹرانسفر کروانے سے بھی بیوہ اس مکمل زمین کی مالک نہیں بنی، لہذا مرحوم کی بیوہ یہ زمین اپنی ایک بیٹی کو دینے کا بالکل اختیار نہیں رکھتی، بلکہ مرحوم خان صاحب کے تمام ورثاء اس زمین میں اپنے شرعی حصوں کے مطابق حق دار ہیں، البتہ اگر خان صاحب نے یہ زمین اپنی اہلیہ کے لیے خریدی تھی اور زندگی میں اپنی اہلیہ کو باقاعدہ مالک اور قابض بنا کر دے دی تھی تو اس صورت میں تفصیل ذکرکرے دوبارہ سوال پوچھ سکتے ہیں۔

حوالہ جات
درر الحكام شرح مجلة الأحكام لعلي حيدر(133/4)دار الجيل:
المادة (1592) - (إذا قال أحد في حق الحانوت الذي في يده بموجب سند: إنه ملك فلان، وليس لي علاقة فيه واسمي المحرر في سنده مستعار، أو قال في حق حانوت مملوك اشتراه بسند من آخر: إنني كنت قد اشتريته لفلان، وإن الدراهم التي أديتها ثمنا له هي من ماله، وقد حرر اسمي في سنده مستعارا. يكون قد أقر بأن الحانوت ملك ذلك الشخص في نفس الأمر) .
إذا قال أحد في حق الحانوت الذي هو في يده بسند: إنه ملك فلان، وليس لي فيه علاقة، وأن الاسم المحرر في سند ذلك الحانوت هو مستعار.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مثلا: لو اشترى أحد من آخر بستانا وحرر الشراء لنفسه بموجب حجة وتصرف بالمبيع ست سنوات ثم توجه إلى سفر، وأقر أثناء السفر بأن البستان المذكور هو ملك لزوجته فإقراره صحيح، ولا يخل الإقرار كون حجة البيع محررة باسمه.
إلا أنه يجب على الزوجة ألا تتخذ الإقرار سبب ملك بل تدعي أن البستان ملكها في الأصل، وأنه اشتراه لها؛ انظر المادة (1627) (فتاوى أبي السعود في الإقرار) .

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

29/ربيع الثانی 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب