021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زنا سے حرمت مصاہرہ کا حکم
74871نکاح کا بیانحرمت مصاہرت کے احکام

سوال

ایک آدمی ایک عورت سے زنا کر لے ، پھر اسی عورت کی بیٹی سے نکاح کر لے ، تو اس کا کیا حکم ہو گا؟

وضاحت از مستفتی:مستفتی نے بتایا کہ   یہاں نکاح لا علمی کی بنیاد پر ہو ا ہے، اور لڑکے ، لڑکی کے علم میں نہیں تھا کہ اس طرح نکاح کرنا حرام اور ناجائز ہے، نکاح میں مہر بھی مقرر ہوا ہے، البتہ نکاح کے بعد خلوت اور ہمبستری کی نوبت نہیں آئی  بلکہ اس سے پہلے ہی گھر والوں نے انہیں علیحدہ کر رکھا ہے  اور  مکمل شرعی معلومات لینے کے بعد جرگہ وغیرہ بٹھا کر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زنا کرنے کی صورت میں زانی مرد اورزانیہ   عورت ( جس عورت سے زنا کیا گیا ) کے درمیان حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ زانی مرد کے اصول ( آباء واجداد ۔۔ باپ ، دادا ، نانا ، پردادا ۔۔الخ)اور فروع   (اولاد ۔۔ بیٹا ، پوتا، نواسا ،پر پوتا۔۔ الخ) زانیہ عورت پر حرام ہو جاتے ہیں اور زانیہ  عورت کے اصول( ماں ، نانی ،دادی  ۔۔ الخ)  و فروع  ( بیٹی ، پوتی، نواسی  ۔۔ الخ )زانی مرد پر حرام ہو جاتے ہیں ،اور ان کے درمیان نکاح  کا انعقاد ممکن نہیں رہتا ۔

لہذا  صورت مسئولہ میں زانی شخص کا زانیہ کی بیٹی سے کیا گیا  عقد "نکاح فاسد"ہے، جسے میاں بیوی میں سے ہر ایک پر  دوسرے کی اجازت کے بغیر  ہی " متارکت ، فسخ اور دیگر ایسے الفاظ سے  جو نکا ح اور تعلق کو ختم کرنے پر دلالت کرتے ہوں"  سے ختم کر کے فوری علیحدگی اختیار کرنا ضروری ہے ۔

البتہ ہمبستری نہ پائی  جانے کی وجہ سےاس صورت میں   عورت کےلیے کسی قسم کا مہر واجب نہ ہو گا، اور نہ  ہی عورت  پر عدت واجب ہو گی۔

حوالہ جات
 [الأحزاب: 49]
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا }
فتح القدير للكمال ابن الهمام (3/ 219)
(قوله ومن زنى بامرأة حرمت عليه أمها) أي وإن علت، فتدخل الجدات بناء على ما قدمه من أن الأم هي الأصل لغة (وابنتها) وإن سفلت، وكذا تحرم المزني بها على آباء الزاني وأجداده وإن علوا وأبنائه وإن سفلوا.
البناية شرح الهداية (5/ 179)
وإذا فرق القاضي بين الزوجين في النكاح الفاسد قبل الدخول فلا مهر لها ولا يقال: ينبغي أن يجب نصف المهر لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ} [البقرة: 237] (البقرة: الآية 237) ؛ لأن قبول ذلك في المطلق بعد النكاح من كل وجه؛ لأن المطلق ينصرف إلى الكامل، ولم يوجد النكاح من كل وجه، انتهى.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 258)
وأما النوع الثاني فالمحرمات بالمصاهرة أربع فرق.
الفرقة الأولى: أم الزوجة وجداتها من قبل أبيها وأمها وإن علون ......وأما الفرقة الثانية: فبنت الزوجة وبناتها وبنات بناتها وبنيها وإن سفلن.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 105)
(قوله والزنا واللمس والنظر بشهوة يوجب حرمة المصاهرة) وقال الشافعي الزنا لا يوجب حرمة المصاهرة؛ لأنها نعمة فلا تنال بالمحظور، ولنا: أن الوطء سبب الجزئية بواسطة الولد حتى يضاف إلى كل واحد منهما كملا فيصير أصولها وفروعها كأصوله وفروعه...........أراد بالزنا الوطء الحرام.
امداد الفتاوی (56/5)
نکاح فاسد و باطل کی  تحقیق سے متعلق ایک جامع فتوی

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۹ ربیع الثانی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب