021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشتبہ چیزوں کاحکم اور اس کی مثالیں
74806جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم مفتیان کرام میں امیدکرتاہوں آپ خیریت سےہونگے۔میرا مشتبہ چیزکےبارےمیں سوال تھاکہ ایک توسراسرحلال چیزہوتی ہےجبکہ دوسری سراسرحرام،اب یہ مشتبہ کےبارےمیں مجھےکچھ کنفیوژن ہےکہ انکا کیا حکم ہےمثلاًمکروہ،ناجائز،مباح وغیرہ وغیرہ،برائےکرم کچھ مشتبہ چیزوں کی مثالیں بھی دیں تاکہ اچھی طرح سمجھ جاؤں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت میں شبہ وہ معتبرہےجوکسی دلیل پر مبنی ہو،بلادلیل ذہن میں اگر کسی چیز کاشبہ ہوتووہ وسوسہ کہلاتاہے،جوشرعاً معتبر نہیں ہے،جبکہ فقہی اصطلاح میں مشتبہ چیز سےمراد یہ ہےکہ کسی چیزکےبارےمیں دلائل یاقرائن میں تعارض ہوجائے،ایک دلیل یاقرینےکی روسے وہ چیز حلال ٹہرتی ہو،جبکہ دوسری دلیل اورقرینے کی روسے وہ چیز حرام ٹہرتی ہو،اسی طرح وہ چیزیں بھی شریعت میں مشتبہ کے تحت داخل ہیں جن میں کسی حرام مال یاحرام چیز کےحلال کےساتھ مل جانے کااندیشہ ہو۔ذیل میں ان تینوں قسموں کےاحکام اورمثالیں ذکر کی جاتی ہیں:

  1. وسوسہ(وہ شبہ جوبلادلیل ہو)شرعاً معتبر نہیں ہے،لہٰذاایسےشبہات کےپیچھےپڑنااوران کےحوالہ سےکھودکریدکرناشرعاًمنع ہے۔اس کی مثال جیسےمسلمانوں کے بازار میں  کوئی گوشت فروخت کررہاہو،اس کےبارےمیں شبہ کرناکہ اس نےذبح سےپہلےبسم اللہ پڑھی ہےیا نہیں؟یاکوئی مسلمان ھدیہ دےرہاہے،اوراس كی کمائی میں حرام کی شمولیت کایقین نہ ہو،تواس کےبارے میں یہ شبہ کرناکہ معلوم نہیں حلال مال سےدےرہاہےیا حرام مال سے؟
  2. شبہ کسی دلیل سےپیداہومگرجس دلیل سےوہ شبہ پیدا ہووہ دلیل دیگر شرعی دلائل کے مقابلےمیں مرجوح(کمزور)ہو،اس صورت میں اس چیز سے بچناشرعاًمستحب اورتقوی کاتقاضاہے،مثلاً اگرکسی چیزکےبارےمیں علماء کاحلال اورحرام ہونےکےبارےمیں اختلاف ہوجائے،توعام شخص کےلیے حکم یہ ہےکہ جوعالم سائل کےنزدیک زیادہ اعلم اورمتقی ہو،اگروہ حلال ہونےکافتوی دےتوایسےمیں اس شخص کےلیےاس مفتی کےفتوی کواختیارکرنےکی اگرچہ گنجائش ہے،مگرشبہ کی وجہ سے دوسرےمفتی (جنہوں نےحرام ہونےکا فتوی دیا ہے)کےقول پرعمل کرنامستحب ہے۔
  3. شبہ کسی ایسی دلیل سےپیداہوجودیگردلائل کےمقابلےمیں راجح ہو،جیسے جن چیزوں میں حرمت اصل

ہے،اگران کی حلت میں شبہ پیداہوتوایسے شبہ سے بچناواجب اورضروری ہے۔مثلاً کسی شخص کےبارے میں علم ہوکہ اس کی مکمل آمدن حرام ہو،ایسےشخص کی طرف سےھدیہ اوردعوت قبول کرناجائزنہیں  ہے،اگرچہ یہاں یہ شبہ بھی ممکن ہےکہ اس شخص کوکسی حلال ذریعہ سےمال حاصل ہواہو(مثلاً میراث،کسی کی طرف سےھدیہ وغیرہ)،مگر اس شبہ سےبچنا واجب ہے۔

حوالہ جات
صحيح البخاري (1/ 20)
52 - حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الحَلاَلُ بَيِّنٌ، وَالحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لاَ يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى المُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ: كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الحِمَى، يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ، أَلاَ وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، أَلاَ إِنَّ حِمَى اللَّهِ فِي أَرْضِهِ مَحَارِمُهُ، أَلاَ وَإِنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً: إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ، أَلاَ وَهِيَ القَلْبُ "
 الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 577)
)قوله لعدم اعتبار الشبهة في زماننا) نقله صاحب الهداية في التجنيس وصاحب المحيط في الذخيرة (قوله بخلاف إلخ) ؛ لأن السكنى في المغصوب حرام والامتناع عن الحرام واجب، بخلاف الامتناع عن الشبهة، فإنه مندوب فيقدم عليه حق الزوج الواجب.
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (1/ 300)
 وَقَالَ الْقُرْطُبِيّ: لَا شكّ أَن ثَمَّ أموراً جلية التَّحْرِيم، وأموراً جلية التَّحْلِيل، وأموراً مترددة بَين الْحل وَالْحُرْمَة، وَهُوَ الَّذِي تتعارض فِيهَا الْأَدِلَّة، فَهِيَ المشتبهات، وَاخْتلف فِي حكمهَا. فَقيل: حرَام لِأَنَّهَا توقع فِي الْحَرَام، وَقيل: مَكْرُوهَة، والورع تَركهَا. وَقيل: لَا يُقَال فِيهَا وَاحِد مِنْهُمَا، وَالصَّوَاب الثَّانِي، لِأَن الشَّرْع أخرجهَا من الْحَرَام فَهِيَ مرتاب فِيهَا. وَقَالَ عَلَيْهِ السَّلَام: (دع مَا يريبك إِلَى مَا لَا يريبك) ، فَهَذَا هُوَ الْوَرع. وَقَالَ بعض النَّاس: إِنَّهَا حَلَال يتورع عَنْهَا. قَالَ الْقُرْطُبِيّ: لَيست هَذِه عبارَة صَحِيحَة، لِأَن أقل مَرَاتِب الْحَلَال ان يَسْتَوِي فعله وَتَركه، فَيكون مُبَاحا، وَمَا كَانَ كَذَلِك لَا يتَصَوَّر فِيهِ الْوَرع، فَإِنَّهُ إِن ترجح أحد طَرفَيْهِ على الآخر خرج عَن ان يكون مُبَاحا، وَحِينَئِذٍ: إِمَّا أَن يكون تَركه راجحاً على فعله، وَهُوَ الْمَكْرُوه، أَو فعله راجحاً على تَركه وَهُوَ الْمَنْدُوب۔
بذل المجهود في حل سنن أبي داود (11/ 13،14)
فالمثال في الحلال والحرام الزوجة للرجل، والجارية تكون عنده يتسرَّى بها ويطؤها، فيشك هل طلق تلك أو أعتق هذه، فهما عنده على أصل التحليل، حتى يتيقن وقوع طلاق أو عتق. وكذلك الماء يكون عنده، وأصله الطهارة، فيشك هل وقع فيه نجاسة أم لا؟ فهو على أصل الطهارة، حتى يتيقن أن قد حَلَّته نجاسة. وكالرجل يتطهر للصلاة، ثم يشك في الحدث، فإنه يصلي ما لم يعلم الحدث يقينًا، وعلى هذه الأمثلة.۔۔۔ويدخل في هذا الباب معاملة من كان في ماله شبهة أو خالطه رِبًا ، فإن الاختيار تركها إلى غيرها, وليس بمحرم عليه ذلك ما لم يتيقن أن عينه حرام، أو مخرجه من حرام، وقد رهن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - درعه من يهودي على أصْوُع من شعير أخذها لقُوت أهله، ومعلوم أنهم يربون في تجارتهم، ويستحلون أثمان الخمور، ووصفهم الله تعالى بأنهم: {سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ} ، فعلى هذه الوجوه الثلاثة يجري الأمر فيما ذكرته لك.
(انعام الباری شرح صحیح البخاری1/580)

 محمدعمربن حسین احمد

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

5ربیع الثانی 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عمر ولد حسین احمد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب