021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غصہ کی حالت میں طلاق
74755طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

عرض ہے کہ میری شادی کو 23 سال کا عرصہ گزرچکا ہے ،میرے چار بچے ہیں :ایک بیٹا اور تین  بیٹیاں ۔

جنابِ عالی میں نے بیس سال پہلے اپنی زوجہ کو ایک طلاق دی جس  وقت میں نے طلاق دی میں مکمل ہوش وحواس میں تھا ، نہ ہی کوئی غصہ تھا نہ ہی کائی دباؤ تھا ، میں اس طلاق کو قبول کرتا ہوں اور مانتا ہوں کہ یہ طلاق ہو گئی ہے ۔ اس کے بعد میں نے دورانِ عدت اپنی زوجہ سے رجوع کرلیا اور زندگی گزرتی رہی ۔

جنابِ عالی تقریبا ڈیڑھ سال  پہلے سے میرے گھریلو حالات بہت خراب ہو گئے اور ہم میاں بیوی میں سخت ناچاقی رہنے لگی ،جنوری2021ء کو  ایک دن یہ ناچاقی اتنی شدت اختیار  کر گئی کہ اس جھگڑے کو سنبھالنا مشکل ہوگیا، اس وقت میری زوجہ کسی صورت قابو میں نہیں آرہی تھی  ،اور مسلسل بد کلامی پر اتری ہوئی تھی  ،اور بات اتنی بڑھ چکی تھی کہ عزت پر  آگئی  تھی ،میں باربار اسے تنبیہ کرتا رہا کہ قابو میں آجاؤ ،لیکن وہ کسی حال قابو میں نہیں آرہی تھی ، میں ان کو ڈرانے کے لیے باربار کہ رہا تھا کہ قابو میں آجاؤ ورنہ میرے منہ سے کچھ نکل جائے گا ،جس پر وہ کہتی کہ ہاں بولو  ،ہاں بولو ،اس نے مجھے اتنا طیش اور اشتعال دلایا  کہ میں قابو سے باہر ہوگیا  اور میرے منہ سے ایک بار" میں نے تجھے طلاق دی  " نکل گیا، یہ الفاظ سننے کے بعد وہ خاموش ہوئیں  اور میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا ،کہ تم نے مجھ سے یہ کیا کروادیا ، میں یہ نہیں کرنا چاہتا تھا ، اس وقت میرا اس کو یہ کہنے کا بالکل ارادہ نہیں تھا ،اور اسے چھوڑنے کی کوئی نیت تھی ،میں یہ الفاظ اس لیے ادا کیے تاکہ وہ میرے قابو میں آجائے کیونکہ بات بہت بڑھ چکی تھی اور عزت اور غیرت پر آچکی تھی ۔

اس کے کچھ دن بعد ہم دونوں نے  باہمی رضامندی سے ایک دوسرے رجوع کرلیا،واضح رہے جس طہر میں یہ طلاق دی گئی اس طہر میں جماع بھی ہوا تھا  اور دو دن پہلے بھی ہوا تھا، واضح  رہے میری زوجہ کا اکثر مجھ سے بغیر کسی شرعی عذر  کے طلاق کا مطالبہ رہتا تھا ۔

مؤرخہ 15 اکتوبر 2021ء کو میری زوجہ نے  مجھ سے پھر طلاق کا مطالبہ شروع کردیا کہ آج ہی مجھے طلاق دو، میں خاموش رہا اور مطالبہ اور بدکلامی کرتی رہی،آخر تنگ آکر میں نے ان کے سامنے شرط رکھ دی " یا تو تم بچوں کو چھوڑ دو یا بچے تمہیں چھوڑ دیں  اس شرط پر میں تمہیں چھوڑوں گا،ورنہ نہیں چھوڑوں گا " اس کے بعد وہ خاموش ہو گئیں  اور وہ دن گزر گیا ۔

اگلے دن 16اکتوبر کو وہ اچانک میرے پاس آئی اور کہنے لگی مجھے تمہاری شرط منظور ہے ، میں سب کچھ چھوڑتی ہوں بس مجھے ابھی اور اسی وقت طلاق دو ،اور وہ زورزور سے چلانے لگیں ،میں ان کو ٹالتا رہا کہ وہ باز آجائے  لیکن وہ مسلسل تکرار کرتی رہی،اور میرے پاس آکر بیٹھ  گئی کہ ابھی الفاظ اد اکرو ،میرے نہ بولنے پر انہوں نے میرے منہ پر مارنا  شروع کردیا کہ ابھی بولو،ابھی بولو،اس  کے بعد میں شدید غصہ میں آگیا اور مجھے خود پر قابو نہ رہا  اور میں اپنے ہوش کھو بیٹھا ، میرا دماغ  بالکل ماؤف ہوچکا تھا اس کے بعد کیا ہوا مجھے کچھ  یاد نہیں   ،خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں بس اتنا یاد ہے  کہ میرے منہ سے چھ بار یہ الفاظ نکلے "جا میں نے تجھے طلاق دی"  اس وقت میرا اسے طلاق دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ،صرف اس کے مجبور کرنے پر ایسا ہوا جس  کی وجہ ذہنی کرب ، جبر اور ذہنی دباؤ تھا  ۔واضح رہے میری زوجہ اس وقت حالتِ حیض میں تھی ،اور پچھلے طہر میں کئی بار جماع بھی ہوچکا تھا۔

جنابِ عالی یہ دونوں طلاقیں میں نے اپنی مرضی سے نہیں دیں ، بلکہ شدید ذہنی دباؤ  میں مبتلا کر کے زبر دستی لی گئیں ہیں ، شریعت کے مطابق یہ طلاقیں واقع ہو گئی ہیں یا شریعت کے حساب سے کوئی اور راستہ ہے جس سے یہ نکاح برقرار رہ سکے ،اور میرا گھر آباد ہو ؟ہم دونوں بہت شرمند ہیں اور اللہ سے معافی کے طلبگار ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

طلاق کا معاملہ عموماغصہ ہی میں پیش آتا ہے، اپنی رضا ورغبت اور خوشی میں  طلاق دینے کا واقعہ کوئی شاذ و نادر ہی پیش آتا ہے، جو حالات غصہ کے آپ نےلکھے ہیں وہ  طلاق کے واقع ہونے میں مانع نہیں ہیں  یعنی ایسی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع ہوجاتی ہے، لہذاآپ کی بیوی پر تین طلاقیں مغلظہ واقع ہو گئی ہیں، جس کے نتیجہ میں وہ آپ پر حرام ہوگئی  ہے ۔ اب رجوع کرنے یا تجدیدِ نکاح کرنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔

ہاں! اگر وہ  عدت گزار کر کسی اور مرد سے نکاح  اور  ازدواجی تعلقات قائم کریں ، پھر دوسرا شوہر  اسے اپنی مرضی سے طلاق دیدے یا اس کا انتقال ہو جائے ، پھر وہ عورت عدت گزار کر آپ سے نکاح  کرناچاہے تو یہ صورت درست ہوگی۔

حوالہ جات
قال العلامۃابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ: قلت: ‌ومقتضى هذا الفرع أن من وصل في الغضب إلى حالة لا يدري فيها ما يقول يقع طلاقه وإلا لم يحتج إلى اعتماد قول الشاهدين أنه استثنى مع أنه مر أول الطلاق أنه لا يقع طلاق المدهوش.(ردالمحتار:3/369)
وقال ایضا:إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.الثالث ‌من ‌توسط ‌بين ‌المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة على عدم نفوذ أقواله. لكن أشار في الغاية إلى مخالفته في الثالث حيث قال: ويقع الطلاق من غضب .وهذا الموافق عندنا لما مر في المدهوش ...والذي يظهر لي أن كلا من المدهوش والغضبان لا يلزم فيه أن يكون بحيث لا يعلم ما يقول بل يكتفى فيه بغلبة الهذيان واختلاط الجد بالهزل كما هو المفتى به في السكران على ما مر قال في الولوالجية: إن كان بحال لو غضب يجري على لسانه ما لا يحفظه بعده جاز له الاعتماد على قول الشاهدين، فقوله لا يحفظه بعده صريح فيما قلنا والله أعلم(ردالمحتار:3/244)

محمد طلحہ شیخوپوری

دار الافتاء ،جامعۃ الرشید،کراچی

3جمادی الاولی/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طلحہ بن محمد اسلم شیخوپوری

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب