021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قسطوں پر کاروبار کا حکم
74794خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

میری الیکٹرانک کی دکان ہے،جس میں چند الیکٹرانک کا ڈسپلے لگا ہوا ہے،اب ایک گاہک کو ایسا فریج،ایل سی ڈی،گیزر وغیرہ چاہیے جو میرے ڈسپلے میں موجود نہیں،اب میں اس گاہک سے مکمل سپیکس معلوم کرکے کل قیمت مثلا ساٹھ ہزار میں سے دس ہزار لیتا ہوں اور اپنے تعلق کی بنیاد پر مارکیٹ سے ادھار یا نقدی خرید کر مذکورہ گاہک کو قسطوں پر مارکیٹ ویلیو سے زائد قیمت پر بیچتا ہوں،اس کاروبار میں کوئی شرعی قباحت تو نہیں؟

اگر ہے تو اس کو درست کرنے کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ طریقے کے مطابق کاروبار کرنا جائز ہے،لیکن معاملہ کرتے وقت  درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:

1۔جب تک آپ مارکیٹ سے چیز خرید کر اپنے قبضے میں نہ لے لیں،اس وقت تک گاہک کو وہ چیز نہ بیچیں،بلکہ ابتداء میں جب گاہک آپ کی دکان پر آئے تو آپ اس سے وعدہ کریں کہ میں یہ چیز آپ کے لئے لے آؤں گا،مارکیٹ سے چیز لانے کے بعد اس کے ساتھ بیع(فروخت) کا معاملہ کریں،کیونکہ بیع کے صحیح ہونے کے لئے بیچی جانے والی چیز کا فروخت کنندہ کی ملکیت اور قبضے میں ہونا ضروری ہے۔

2۔چیز کی قیمت اور قسطیں کسی ابہام کے بغیر طے کرلینا ضروری ہےاور جو قیمت طے ہوجائے خریدار سے اسی کا مطالبہ کیا جائے،نہ قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے اس میں کوئی اضافہ کیا جاسکتا ہے اور نہ جلدی ادائیگی کی صورت میں کمی کی شرط لگائی جاسکتی ہے۔

البتہ جلدی ادائیگی کی صورت میں اگر بیچنے والا اس وقت اپنی طرف سے قیمت میں کچھ کمی کرنا چاہے اور معاملے کے وقت اس قسم کی کوئی شرط نہ لگائی گئی ہو تو اس کی گنجائش ہے،لیکن خریدار کو اس کے مطالبے کا حق نہیں۔

حوالہ جات
"رد المحتار"(4/ 505):
"وأما الثالث: وهو شرائط الصحة فخمسة وعشرون: منها عامة ومنها خاصة، فالعامة لكل بيع شروط الانعقاد المارة؛ لأن ما لا ينعقد لا يصح، وعدم التوقيت، ومعلومية المبيع، ومعلومية الثمن بما يرفع المنازعة فلا يصح بيع شاة من هذا القطيع وبيع الشيء بقيمته، أو بحكم فلان وخلوه عن شرط مفسد كما سيأتي في البيع الفاسد والرضا والفائدة، ففسد بيع المكره وشراؤه وبيع ما لا فائدة فيه وشراؤه كما مر، والخاصة معلومة الأجل في البيع المؤجل ثمنه، والقبض في بيع المشترى المنقول".
 "المبسوط للسرخسي" (13/ 7):
"وإذا عقد العقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي - صلى الله عليه وسلم - عن شرطين في بيع وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد".
"الدر المختار " (5/ 200):
" (الصلح الواقع على بعض جنس ما له عليه) من دين أژ غصب (أخذ لبعض حقه وحط لباقية لا معاوضة للربا) وحينئذ (فصح الصلح بلا اشتراط قبض بدله عن ألف حال على مائة حالة أو على ألف مؤجل وعن ألف جياد على مائة زيوف، ولا يصح عن دراهم على دنانير مؤجلة) لعدم الجنس فكان صرفا فلم يجز نسيئة (أو عن ألف مؤجل على نصفه حالا) إلا في صلح المولى مكاتبه فيجوز.
زيلعي (أو عن ألف سود على نصفه بيضا) والاصل أن الاحسان إن وجد من الدائن فإسقاط، وإن منهما فمعاوضة".
"بحوث فی قضایا فقھیةمعاصرة " (ص :33):
"وکذلک المنع من الوضع بالتعجیل فی الدیون المؤجلة انما یکون اذا کان الوضع للدائن شرطا للتعجیل،اما اذا عجل المدیون من غیرشرط جاز للدائن ان یضع عنہ بعض دینہ تبرعا وعلیہ حمل الجصاص رحمہ اللہ الآثار التی تدل علی جواز ضع وتعجل".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

03/جمادی الاولی1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب