021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
رشوۃ کے احکام
74803جائز و ناجائزامور کا بیانرشوت کا بیان

سوال

میں لائنسنز ہولڈرز  کنٹریکٹرز سے  گورنمنٹ  بلڈنگ کا  ٹھیکہ خریدتا ہوں  ، مثال کے طور پر میں نے  10 لاکھ کے بدلے کام خرید لیا، آگے کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ بلڈنگ بنانے میں 30فیصد  پیسے  اپنی جیب سے لگانے پڑتے ہیں  اور اصولا اتنا کام ہو جانے پر اس کام کے پیسے ہمیں  سرکاری طور پر ملنے ہوتے ہیں، چنانچہ میں  30 فیصد کام کر لینے کے  بعد  پیسے وصول کرنے کے لیے بل بنوانے دفتر جاتا ہوں،وہاں  بیٹھے لوگ  بل بنانے میں تاخیر کرتے ہیں، اگر ان لوگوں کو  رشوۃ کے طور پر  3 سے 5فیصد تک نہ دیا جائے تو  وہ لوگ یا تو  بل  بنانے میں تاخیر کرتے  رہتے ہیں ، یا پھر    محض   10 سے  15فیصد کام   کے پیسوں کا بل بنا کر دیتے ہیں اور بہانہ یہ کرتے ہیں   کہ ابھی یہی ہیں ، اور یہی رکھ لو وغیرہ ،جبکہ ہمیں   مارکیٹ  میں ان پیسوں کی ادائیگی کرنی  ہوتی ہے۔

پوچھنا یہ تھا کہ اس طرح رشوۃ دینا  حرام ہے یا مجبوری کی وجہ سے ا س کی گنجائش ہے؟ نیز ادائیگی رشوۃ کی وجہ سے  آمدنی کاکیا  حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

لوگوں کی جان ، مال ، عزت آبرو، دین اور عقل کی مکمل حفاظت کرنا اور  ایک عا دلانہ معاشرہ قائم کرنا  شریعت  کے مقاصد میں  سے ہے، اسی لیے  شریعت نے ایسے تمام امور کو ناجائز ٹھہرایا ہے جو معاشرے  کے منصفانہ   نظام میں بگاڑ کا ذریعہ بن سکیں۔ رشوۃ کا لین دین بھی چونکہ معاشرے   کے فطری تواز ن کو بگاڑنے اور  حقوق کی پامالی کا ذریعہ ہے،ا س لیے  شریعت مطہرہ نے  رشوۃ کے لین دین کو حرام اور اس کام میں ملوث   تما م افراد(رشوۃ دینے والے ، رشوۃ لینے والے اور ان کے بیچ واسطہ بننے والے ) کو گناہگار ، ملعون اور جہنمی قرار دیا ہے۔

البتہ فقہاء کرام نے  دو صورتوں میں مجبوری کی وجہ سے رشوۃ دینے کو جائز کہاہے، ایک یہ کہ  کسی کی طرف سے جانی نقصان ، ظلم یا ضرر کا اندیشہ ہو تو وہاں اس کے نقصان سے  بچاو کےلیے اسے  رشوۃ  کے طور پر کوئی  مال یا  منفعت دے دینا جائز ہے، اوردوسری یہ کہ  کسی ثابت شد ہ مالی حق تک وصولی اگر رشوۃ دیے بغیر   ممکن نہ ہو تو وہاں بھی  اس حق کو پانےکے لیے بطور رشوۃ کچھ دے دینا مباح ہے، البتہ رشوۃ لینا بہر صورت ناجائز ہے، جس کے جواز کی کوئی صورت ممکن نہیں۔

صورت مسئولہ میں  رشوۃ کی ادائیگی  ، بیان کردہ جواز کی دو  صورتوں  میں سے دوسری صورت میں داخل ہے کہ یہاں ایک ثابت شدہ مالی حق کے حصول کے لیے رشوۃ ادا کی جا رہی ہے، لہذا اس صورت میں   رشوۃ دینے کی گنجائش ہے  اور رشوۃ دینے  والے پر اس کا  گناہ بھی  نہ ہو گا، نیز ادائیگی رشوۃ کی وجہ سے   ٹھیکہ پر لیے  جانے والے کام  سے حاصل شدہ آمدنی اور رقم میں کوئی فرق نہیں پڑے گا، بلکہ اگر دیانتداری اور  طے شدہ مواصفات کے مطابق کام پورا کیا جائے تو اس سے حاصل شدہ آمدنی  اور رقم بدستور حلا ل رہے گی۔

البتہ اگر ٹھیکہ لینے والے کو پہلے سے ہی غالب گمان کی حد تک علم ہو جائے کہ اسے  اس ٹھیکہ میں  رشوۃ دینے کی نوبت آئیگی ، یا  پھر وہ کاروبار ہی ایسا ہو کہ وہاں رشوۃ دیے بغیر کام نہ چلتا ہو  تو پھر مناسب یہی ہے کہ کسی    ایسے دوسرے حلال اور جائز کاروبار  کی تلاش شروع کی جائے جو خلاف شرع امور سے بالکل پاک ہو ، اور ایسے کام کے  ملتےہی رشوۃ  سے جڑے اس کاروبار کو چھوڑ دیا جائے۔

حوالہ جات
[البقرة: 188]
{ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ}
المبسوط (16/ 279)
 وقال صلى الله عليه وسلم { الراشي والمرتشي والرايش في النار ، ولعن الله من أعان الظلمة ، أو كتب لهم }
سنن الترمذي ت بشار (3/ 15)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِيَ وَالمُرْتَشِيَ فِي الحُكْمِ.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 362)
وفي المصباح الرشوة بالكسر ما يعطيه الشخص الحاكم وغيره ليحكم له أو يحمله على ما يريد....وفي الفتح: ثم الرشوة أربعة أقسام: منها ما هو حرام على الآخذ والمعطي وهو الرشوة على تقليد القضاء والإمارة.الثاني: ارتشاء القاضي ليحكم وهو كذلك ولو القضاء بحق؛ لأنه واجب عليه.الثالث: أخذ المال ليسوي أمره عند السلطان دفعا للضرر أو جلبا للنفع وهو حرام على الآخذ فقط .....الرابع: ما يدفع لدفع الخوف من المدفوع إليه على نفسه أو ماله حلال للدافع حرام على الآخذ؛ لأن دفع الضرر عن المسلم واجب ولا يجوز أخذ المال ليفعل الواجب، اهـ ما في الفتح ملخصا.

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۶ جمادی الاولی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب