021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گھر کی ملکیت میں اختلاف اور اس سے متعلق دیگر مسائل کا حکم
74852خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

1963ء میں ہمارے والد اور ان کے بڑے بھائی (جو کہ ہم زلف بھی تھے ) نے برابری کی بنیاد پر ایک زمین خریدی۔ کچھ عرصے وہ پلاٹ کی صورت میں خالی پڑی رہی (8 سے 10 سال )، جب تعمیر کا مرحلہ آیا تو باہمی رضامندی سے نیچے بڑے بھائی نے اور اوپر چھوٹے بھائی نے اپنے اپنے خرچہ  پر اپنے پورشن بنا لئے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گیٹ، چار دیواری اور بنیاد تک میں برابری کی بنیاد پر پیسے ادا کئے۔

20 ، 22 سال تک بغیر کسی اختلاف کے سب پر امن زندگی گزارتے  رہے، جب لیز کا وقت آیا تو دونوں  بھائیوں نے کیا معاملات طے کئے (یہ نہیں معلوم ) کہ کاغذات بڑے بھائی کے نام پر ہیں اور دونو ں فریقوں کے پاس  اپنے والد کی جانب سے کوئی تحریری ثبوت بھی نہیں ہیں کہ انہوں نے اس معاملے میں آپس میں کیا  طے کیا، کیونکہ کاغذات بڑے بھائی کے نام پر ہیں تو اس لئے دنیا اور آخرت میں ہر قسم کی جوابدہی سے بچنے کے لئے ہم زمین میں اپنا حق چھوڑ رہے ہیں۔

اس کے بعد بڑے بھائی نے ضرورت کے تحت باہمی رضا مندی سے ہمارے پورشن کے اوپر ایک اور پورشن  تعمیر کیا  اور پھر کچھ عرصے بعد ہمارے  تایا اور تائی کا انتقال ہو گیا جبکہ ہمارے والدین حیات تھے اور کافی عرصے بغیر کسی رکاوٹ کے پورے حق ملکیت کے ساتھ وہاں   رہتے رہے ۔ جب ہمارے بھائیوں نے اپنا گھر بنایا تو والدین سمیت سب نئے گھر میں شفٹ ہو گئے۔ تقریباً  17سال اس پورشن پر ہمارا تالا لگا رہا اور ابھی بھی سامان سمیت ہماری کسٹڈی میں ہے، اس دوران  انہوں نے کبھی بھی ہمارے والدین سے اس بارے میں کوئی  بات نہیں کی جبکہ ہمارے والدین کافی عرصے حیات رہے۔ والدین کی وفات کے بعد ان کی جانب سے وقتاً فوقتا ہمارے پورشن کو خرید نے کی بات ہوئی اور مختلف رقم آفر کرتے رہے لیکن دونوں جانب سے بات  نہیں بنی۔

اب اچانک ان کی جانب سے یہ بات سامنے آئی کہ ان کے والد نے ہمدردی کی بنیاد پر ہمارے والد کو اپنے (والد)     خرچ پر پہلی منزل بنانے  کی اجازت دی۔ ایک طرف وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ آپ کے والدین نے اپنے ہی خرچے پر بنایا ہے لیکن  آپ نے اس میں رہ کر اپنا پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ لہذا جو خرچہ آپ کے والد کا تعمیر پر اس وقت ہوا تھا، آپ صرف اس رقم کے حق دار  ہیں۔ لہذا  اس رقم کے عوض ہمیں یہ پورشن فروخت کردیں۔

یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے تایا نے اپنی وصیت میں صرف گراؤنڈ اور دوسری منزل کا ذکر کیا ہے، جبکہ درمیانی (پہلی) منزل جو کہ ہمارے والد کی تھی اس کا ذکر  موجود نہیں اور نہ ہی یہ ذکر ہے کہ انہوں نے پہلی منزل ہمیں احسان کے طور بنانے کے لئے ہمدردی  کی بنیاد پر دی۔

سوالات

  1. کیا ان کا یہ کہنا کہ ہم نے حق ملکیت وہاں پہلی منزل پر رہ کر وصول کر لیا درست ہے؟
  2. ان کا یہ دعوی کہ آپ صرف پرانی قیمت لینے کے حقدار ہیں درست ہے؟
  3. کیا ہم اپنے پورشن کی موجودہ  بازاری قیمت (Market Value) لینے کے مجاز ہیں؟

شریعت کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ مفتی یا مجیب کی ذمہ داری سوال کے مطابق جواب لکھنا ہے، سوال میں جو کچھ لکھا گیا ہے  وہ درست ہے یا نہیں اس کی مکمل ذمہ داری  سائل پر ہے اور کسی قسم کی غلط بیانی کر کے فتویٰ لینے سے کوئی حرام  حلال نہیں ہوجاتا اور نہ کوئی حلال حرام ہو جاتا ہے، بلکہ غلط بیانی کرنے کا وبال بھی اسی سائل پر ہو گا۔ جوابات درج ذیل ہیں۔

(۱) سوال میں ذکر کردہ صورتحال کے مطابق  گھر آپ کے  تایا اور والد کے درمیان برابری کی بنیاد پر  مشترک تھا،  چنانچہ آپ کے والد  اس گھر کے آدھے  حصّہ کے مالک تھے لیکن  چونکہ آپ نے اپنے پورشن کے علاوہ گھر  اور زمین کے باقی حصے میں اپنا حق چھوڑ دیا تھا  تو اب آپ  کی ملکیت صرف آپ کے پورشن تک محدود ہے۔  لہذا  جب تک آپ اس پورشن  کے مالک ہیں تب تک تمام تر حقوق  کے بھی آپ ہی مالک ہیں اور  دوسرے فریق   کا یہ کہنا کہ آپ نے اپنا حق ملکیت وصول کر لیا ہے درست نہیں ہے ۔

(۲-۳) آپ اپنی ملکیت میں موجود پورشن میں شرعاً ہر قسم کا تصرف کر سکتے ہیں، اور دوسرے فریق کا یہ دعوی کرنا کہ آپ صرف پرانی قیمت لینے کے حقدار ہیں درست نہیں ہے، لہذا آپ اپنے گھر کو جس قیمت پر چاہیں فروخت کر سکتے ہیں، البتہ اگر آپ دوسرے فریق کے علاوہ کسی اور کو اپنا پورشن فروخت کرتے ہیں تو ان کو  شفعہ کا حق ہو گا یعنی یہ حق ہوگا کہ وہ خریدار کو طے شدہ قیمت دے کر پورشن خود رکھ لیں۔

حوالہ جات
القرآن الكريم [النساء: 29]:
 ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴾
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:(6/ 263)
وأما بيان حكم الملك والحق الثابت في المحل فنقول وبالله التوفيق حكم الملك ولاية التصرف للمالك في المملوك باختياره ليس لأحد ولاية الجبر عليه إلا لضرورة ولا لأحد ولاية المنع عنه وإن كان يتضرر به إلا إذا تعلق به حق الغير فيمنع عن التصرف من غير رضا صاحب الحق وغير المالك لا يكون له التصرف في ملكه من غير إذنه ورضاه إلا لضرورة وكذلك حكم الحق الثابت في المحل عرف هذا فنقول للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء سواء كان تصرفا يتعدى ضرره إلى غيره أو لا يتعدى فله أن يبني في ملكه مرحاضا أو حماما أو رحى أو تنورا وله أن يقعد في بنائه حدادا أو قصارا وله أن يحفر في ملكه بئرا أو بالوعة أو ديماسا وإن كان يهن من ذلك البناء ويتأذى به جاره۔
مجلة الأحكام العدلية (204):
(المادة 1060) شركة الملك هي كون الشيء مشتركا بين أكثر من واحد أي مخصوصا بهم بسبب من أسباب التملك كالاشتراء والاتهاب وقبول الوصية والتوارث أو بخلط , واختلاط الأموال يعني بخلط الأموال بعضها ببعض بصورة لا تكون قابلة للتمييز والتفريق أو باختلاط الأموال بتلك الصورة بعضها ببعض۔ مثلا: لو اشترى اثنان مالا أو وهبه أحد لهما أو أوصى به وقبلا أو ورث اثنان مالا فيكون ذلك المال مشتركا بينهما ويكونان ذوي نصيب في ذلك المال ومتشاركين فيه ويكون كل منهما شريك الآخر فيه۔ كذلك إذا خلط اثنان ذخيرتهما بعضها ببعض أو اختلطت ذخيرتهما ببعضها بانخراق عدولهما فتصير هذه الذخيرة المخلوطة أو المختلطة مالا مشتركا بين الاثنين۔
و فیه ایضا (206):
المادة (1072) ليس لأحد الشريكين أن يجبر الآخر بقوله له: بعني حصتك أو اشتر حصتي۔ غير أنه إذا كان الملك المشترك بينهما قابلا للقسمة والشريك ليس بغائب فله أن يطلب القسمة وإن كان غير قابل للقسمة فله أن يطلب المهايأة۔

 محمد انس جمیل

 دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

 ١١٥/١٤٤٣                                                                

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد انس ولدمحمد جمیل

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب