021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وراثت کی تقسیم اور لے پالک بیٹے کی وراثت کا حکم
74833میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

گزارش  ہے کہ ایک شخص کا انتقال ہو گیاہے ان کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی البتہ انہوں نے چھوٹے بھائی سے ایک بیٹا اڈاپٹ کیا ہواتھا اب مرحوم کے ورثاء میں ایک بیوہ اور دو بھائی ہیں  والدین پہلے ہی فوت ہو چکے ہیں مندرجہ زیل سوالوں کے جواب مطلوب  ہیں:

۱- تقسیمِ واثت کیسے ہوگی؟

۲- کون کونسی اشیاء وراثت میں شامل ہونگی؟

۳- بیوہ  اگر اپنا حصہ منہ بولے بیٹے کو دینا چاہے تو کیا حکمِ شرعی ہوگا؟

۴- لے پالک بیٹے کے لئے کیا حکمِ شرعی ہوگا؟

۵- مرحوم کی ملکیت میں ایک گھر تھا لیکن وہ انہوں نے کسی مصلحت کی خاطر اپنے برادر نسبتی کے نام کروایا ہوا تھا اب اس کا کیا حکم ہو گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں۔

۱  - میت کے ترکہ میں سے  سب سے پہلے اس کی   تجہیز و تکفین اور  اس کے بعد  قرض کی ادائیگی   کی جائے گی اور پھر  اگر اس  نے کسی کے لئے وصیت کی ہو تو  ایک تہائی ترکہ سے اس کی وصیت  پوری کی جائے گی۔ اس کے بعد  کل ترکہ کے  ۸ حصے  بنائے جائینگے  جن میں سے دو حصے بیوہ کو ملیں گے اور باقی چھ حصص دو بھائیوں میں برابر تقسیم   ہوں گے۔

۲-  ہر وہ قیمت والی چیز جو میت کی وفات  کے وقت  اس کی ملکیت میں ہو اور اس میں کسی اور کا حق  نہ ہو    مثلاً اس   کی نقدی، زمین، گھر، سامان وغیرہ  تو ان تمام اشیاء میں وراثت جاری ہو گی۔

 (۳،۴)- لے پالک کا وراثت میں کوئی  حصّہ نہیں ہوتا  کیوں کہ وہ حقیقی اولاد نہیں ہوتا، اس کو وراثت اپنے حقیقی والد سے ملے گی، البتہ اگر بیوہ اپنا حصّہ لے پالک بیٹے کو دینا چاہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے وہ اپنے حصّہ پر قبضہ کر لے اور پھر وہ لے پالک کو ہبہ کر دے۔

۵- وہ گھر بھی میت کی میراث میں شامل ہو کر تقسیم ہو گا، محض دستاویزات پر کسی اور کا نام ہونے سے وہ اس کی ملکیت  سے خارج نہ  ہو گا۔

حوالہ جات
القرآن الكريم ، [الأحزاب: 4-5]:
﴿مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ (٤) ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (٥)﴾
الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار(ص761):
(يبدأ من تركة الميت الخالية عن تعلق الغير بعينها كالرهن والعبد والجاني) والمأذون المديون والمبيع المحبوس بالثمن والدار المستأجرة، وإنما قدمت على التكفين لتعلقها بالمال قبل صيرورته تركة (بتجهيزه) يعم التكفين (من غير تقتير ولا تبذير) ككفن السنة أو قدر ما كان يلبسه في حياته، ولو هلك كفنه: فلو قبل تفسخه كفن مرة بعد أخرى وكله من كل ماله (ثم) تقدم (ديونه التي لها مطالب من جهة العباد) ويقدم دين الصحة على دين المرض إن جهل سببه، وإلا فسيان كما بسطه السيد. وأما دين الله تعالى فإن أوصى به وجب تنفيذه من ثلث الباقي، وإلا لا (ثم) تقدم (وصيته) ولو مطلقة على الصحيح خلافا لما اختاره في الاختيار (من ثلث ما بقي) بعد تجهيزه وديونه.
وإنما قدمت في الآية اهتماما لكونها مظنة التفريط (ثم) رابعا بل خامسا (يقسم الباقي) بعد ذلك (بين ورثته) أي الذين ثبت إرثهم بالكتاب أو السنة كقوله عليه الصلاة والسلام: أطعموا الجدات السدس أو الاجماع»

 محمد انس جمیل

 دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

‏  ٠٩/۰٥/١٤٤٣                                                                

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد انس ولدمحمد جمیل

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب