021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شرعی شہادت اورمعقول عذرکے بغیر عدالتی فسخ نکاح معتبر نہیں
75350طلاق کے احکاموہ اسباب جن کی وجہ سے نکاح فسخ کروانا جائز ہے

سوال

دسمبر 2019 میں سائلہ کا نکاح ہوا اور رخصتی بھی،شروع سے ہی سسرال والوں کا رویہ میرے ساتھ ٹھیک نہیں تھا،شوہر میرے والد کے گھر کے معاملات میں دخل اندازی کرتا تھا اور والد کے گھر کے معاملات کے حوالے سے تنگ کرتا تھا،شوہر چاہتا تھا کہ میں نوکری کروں اور بچے بھی نہ ہوں،اسی دوران میں حاملہ ہوگئی اور ان کا رویہ اور زیادہ خراب ہوگیا،ان لوگوں کی ہر طرح سے کوشش تھی کہ بچہ نہ ہو،اسی دوران شادی کے چھ ماہ میں میرے شوہر نے مجھے واپس بھیج دیا،پھر بھی سسرال والے بہت پریشان کرتے رہے اور والد سے پیسے مانگنے پر مجبور کرتے رہے،پھر دو ماہ گزرنے کے بعد 03 اگست 2020 کو شوہر نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا،جبکہ آٹھ ماہ کا حمل تھا اور شوہر کے گھر والے دیکھتے رہے،میں نے اپنے گھر والوں کو اطلاع دی تو شوہر نے مجھے والد کے گھر بھیج دیا اور کہا کہ ہم دس سے پندرہ دن میں رابطہ کرلیں گے،لیکن کوئی رابطہ نہیں کیا،میرے والد نے ان لوگوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ان لوگوں نے کوئی جواب نہ دیا اور کہا کہ تمہارا اور بچے کی پیدائش کا سارا خرچ تمہارا والد اٹھائے گا اور واپس آنا ہے تو والد سے کہو کہ وہ خود چھوڑ جائے اور ساتھ یہ بھی کہا کہ  ہمارے گھر سے جو جاتا ہے ہم اسے لینے نہیں جاتے۔

پھر الگ گھر کا مطالبہ بھی کیا اور میں نے اپنے تمام معاملات لکھ کر فتوی لیا،لیکن ان لوگوں نے ماننے سے انکار کردیا،پھر بچہ پیدا ہوا،میرے والد نے پھر بھی صلح کی کوشش کی اور کچھ معزز لوگوں کو بٹھاکر بات کی،وہاں سب کے سامنے شوہر بولا،میں لینے جاؤں گا،لیکن بعد میں انکار کردیا اور طلاق کی دھمکیاں دیں،میں نے اپنے اور بچے کے خرچ کا مطالبہ کیا تو دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ قانونی طریقے سے خرچہ لے لو،میں کچھ بھی نہیں دوں گا اور میرے خاندان والوں سے کہا کہ لڑکی بھیجنی ہے تو بھیج دو،ورنہ طلاق کے پیپر بھیج دوں گا۔

ہم نے کہا کہ طلاق کے پیپر بھیج دیں تو انکار کردیا اور کہا کہ میں طلاق نہیں دے رہا،خلع لینی ہے تو لے لو اور اس کے بعد بھی میرے والد نے لڑکے کے والد سے رابطہ کیا اور صلح کی کوشش کی، لیکن وہ لینے نہیں آئے اور میرا اور بچے کا خرچہ بھی نہیں دیا،جب سے مجھے گھر سےنکالاتھا،بچے کی پیدائش کے سات مہینے بعد میں نے عدالت میں خلع کا کیس دائر کیا،پھر لڑکے نے دھکمیاں دینا شروع کردیں کہ میں طلاق بھی نہیں دوں گا اور خلع بھی نہیں دوں گا،پھر عدالت کی چار سے پانچ مہینے کی کاروائی ہوئی تو جج کے سامنے جھوٹ بولا کہ میں سارا خرچ دے رہا ہوں اور حق مہر بھی دیا ہے،جبکہ باہر سے ہمیں دھمکیاں دلواتا رہا کہ میں خرچہ بھی نہیں دوں گا اور بچہ بھی تمہارا باپ پالے گا اور سات سال بعد بچہ لے لوں گا۔

پندرہ جولائی 2021 کو جج کے سامنے پیش ہوا تو کہا کہ خلع کے لئے راضی نہیں ہوں تو جج نے وقت دیا کہ باہر لڑکی کا باپ ہے،جاکر ان سے بات کرو،لڑکے نے نہ بات کی اور نہ ساتھ لے جانے کی کوشش کی،اس کے بعد جج نے ڈگری جاری کردی،یاد رہے کہ اس نے حق مہر کی ادائیگی بھی نہیں کی اور نان نفقہ بھی نہیں پورا کیا،ابھی تک عدالت میں میرا اور بچے کا کیس چل رہا ہے،لڑکے میرا کوئی پچھلا خرچ نہیں دیا اور نہ عدت کا خرچ دیا،بچے کا خرچ عدالت نے اگست 2021 سے لگادیا ہے،وہ بھی نہیں ملا،میرے وکیل نے کہا کہ خلع لینے کی صورت میں میرا کوئی خرچہ نہیں ملے گا،جبکہ لڑکا نہ خلع کے لئے راضی تھا اور نہ نان نفقہ کے لئے۔

1۔سوال یہ ہے کہ کیا عدالت جاری کی گئی خلع کی ڈگری شرعی لحاظ سے درست ہے یا نہیں؟ یا اس کا شمار عدالتی خلع یعنی فسخ نکاح میں ہوگا؟لڑکے نے نان نفقہ دینے سے بھی انکار کردیا تھا،کچھ علماء کے نزدیک یہ خلع نہیں،تفریق ہے،کیا یہ شرعی لحاظ سے ٹھیک ہے،کیا میں دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہوں؟

2۔ پندرہ جولائی 2021 کو ڈگری جاری ہوئی عدالت سے،کیا عدت اسی وقت سے شروع ہوگئی تھی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

خلع کے لیے شوہر کی رضامندی ضروری ہے،شوہر کی رضامندی کے بغیر عدالت کی طرف سے جاری کیا گیا یکطرفہ فیصلہ شرعا نافذ نہیں ہوتا اور بیوی بدستور سابقہ شوہر کے نکاح میں رہتی ہے،جبکہ شوہر کی رضامندی کے بغیر فسخِ نکاح کا اختیار جج کو صرف درج ذیل صورتوں میں حاصل ہوتا ہے:

ا۔شوہر نامرد ہو۔

۲۔ متعنت ہو یعنی نان نفقہ نہ دیتا ہواور نہ طلاق دیتا ہو۔

۳۔مفقود یعنی ایسا لاپتہ ہو کہ اس کا کوئی حال احوال معلوم نہ ہو۔

۴۔غائب غیر مفقود ہو یعنی پتہ معلوم ہو،لیکن نہ خود بیوی کے پاس آتا ہو اور نہ بیوی کو اپنے پاس بلاتا ہو۔

۵۔ایسا پاگل ہویا ایسا تشدد کرتا ہو کہ اس کے ساتھ رہنے میں ناقابل برداشت تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو۔

ان کے علاوہ محض عورت کی ناپسندیدگی کی بناء پر جج کو فسخِ نکاح کا اختیار حاصل نہیں ہوتا،نیزفسخ نکاح کی ان وجوہات میں سے ہر ایک وجہ کی الگ الگ تفصیلی شرائط ہیں، نکاح فسخ کرتے وقت ان کی رعایت رکھنا لازم ہے،اگر ان میں سے کسی شرط کی رعایت نہ رکھی جائے تو فسخ نکاح کا فیصلہ شرعا نافذ نہیں ہوتا۔(فقہی مقالات:2/ 192)

سوال میں ذکر کی گئی تفصیل سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ شوہر بیوی کو ضابطے کے مطابق رکھنے پر آمادہ ہے،بس وہ اس ضد پر اڑگیا ہے کہ بیوی ازخود اس کے گھر جائے وہ لینے نہیں آئے گا،لہذا اگر بیوی کے اس کے گھر جانے کی صورت میں وہ اسے اس کے حقوق کی رعایت کے ساتھ معروف طریقے کے مطابق رکھنے پر آمادہ تھا تو پھر شرعی لحاظ سے بیوی کو عدالت سے فسخ نکاح کے لئے رجوع کا حق حاصل نہیں تھا۔

نیز شوہر کے تعنُّت سے قطع نظر بھی عدالت سے جاری کی گئی خلع کی ڈگری شرعاً معتبر نہیں،کیونکہ عدالت نے عورت سے اس کے دعوی پر گواہ طلب نہیں کیے،اس لیے شرعا عدالت کا یہ فیصلہ نافذ نہیں ہوا اور یہ عورت بدستور سابقہ شوہر کے نکاح میں ہے،جب تک سابقہ نکاح ختم نہیں ہوجاتا تب تک یہ عورت کسی اور جگہ نکاح نہیں کرسکتی۔

اس لیے اگر بیوی کے گھر جانے کی صورت میں شوہر اسے معروف طریقے کے مطابق ساتھ رکھنے پر آمادہ ہے تو پھر بیوی کے ذمے لازم ہے کہ دونوں خاندانوں کے بڑوں کے ذریعے صلح صفائی کراکے ازخود اس کے پاس چلی جائے،لیکن اگر بیوی کے ازخود جانے کی صورت میں بھی وہ اسے اس کے حقوق کی رعایت کے ساتھ معروف طریقے کے مطابق رکھنے پر تیار نہ ہو توپھرسابقہ نکاح کو ختم کرنے کی سب سے بہتر صورت یہ ہے کہ کسی مناسب طریقے سے شوہر کو طلاق دینے پر آمادہ کرلیا جائے،اگروہ طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو تو پھر مہر کے بدلے خلع لینے کی کوشش کی جائے،اگر وہ نہ طلاق دینے پر آمادہ ہو اور نہ خلع دینے پر اور نہ ہی بیوی کے حقوق کی رعایت رکھ کر ساتھ رکھنے کے لئے تیار  ہو تو پھر یہ عورت دوبارہ عدالت سے رجوع کرے اور اپنی بات ثابت کرنے کے لیے اپنے دعوی کے ساتھ دو گواہ یا اسٹام پیپر پر ان کی تحریری گواہی بھی جج کے سامنے پیش کرے،جب عورت کا دعوی صحیح ثابت ہوجائے تو عدالت کو فسخِ نکاح کا حق حاصل ہوگا۔

اور اگر دوبارہ عدالت سے رجوع میں مشکل ہو تو اپنے علاقے کی پنچائیت میں اس معاملے کو لے جائے اور ان کے سامنے اپنی بات کو گواہوں سے ثابت کردے،اس کے بعد پنچائیت کو عورت کے نکاح کو فسخ کرنے کا حق حاصل ہوگا۔

تنبیہ: اگر پنچائیت سے فیصلہ کرایا جائے تو اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ وہ پنچائیت کم از کم تین ایسے ارکان پر مشتمل ہو جو سب علماء ہوں،اگر علماء میسر نہ ہوں تو کم از کم نیک ہوں اور کسی ایسے عالم سے راہنمائی لے کر فیصلہ کریں جو شہادت اور قضاء کے احکام سے بخوبی واقف ہوں،نیز فسخِ نکاح کا فیصلہ پنچائیت کے تمام ارکان کے اتفاقِ رائے سے ہو کسی کا اختلاف نہ ہو۔

حوالہ جات
"الفتاوى الهندية" (4/ 3):
"(وأما حكمها) فاستحقاق الجواب على الخصم بنعم أو لا فإن أقر ثبت المدعى به وإن أنكر يقول القاضي للمدعي: ألك بينة فإن قال: لا، يقول لك يمينه ولو سكت المدعى عليه ولم يجبه بلا أو نعم فالقاضي يجعله منكرا حتى لو أقام المدعي البينة تسمع كذا في محيط السرخسي".
"الفواكه الدواني "(2/ 41):
"(تنبيهات) الأول: لم ينص المصنف على من ترفع له زوجة المفقود، وقد ذكرنا عن خليل أنه القاضي أو الوالي أو جماعة المسلمين، ولكن عند وجود الثلاثة لا ترفع إلا للقاضي لا لغيره، فإن رفعت لغيره مع التمكن من الرفع له حرم عليها ذلك، وإن مضى ما فعله إن كان هو الوالي أو والي الماء لا جماعة المسلمين، هذا ما يظهر من كلام ابن عرفة كما قاله الأجهوري، وأما لو رفعت لجماعة المسلمين مع وجود الوالي أو والي الماء فالظاهر مضي فعلهم.
وفي السنهوري وتبعه اللقاني أن ظاهر كلام خليل أن الثلاث في مرتبة واحدة وهو كذلك إلا أن القاضي أضبط، ووجود القاضي أو غيره مما ذكر مع كونه يجوز أو يأخذ المال الكثير بمنزلة عدمه فترفع لجماعة المسلمين".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

12/جمادی الثانیہ1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب