021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
متعنت شوہر کا حکم
75351طلاق کے احکاموہ اسباب جن کی وجہ سے نکاح فسخ کروانا جائز ہے

سوال

کیا اسلام میں مرد کو اس چیز کی اجازت ہے کہ وہ عورت کو زبردستی نکاح میں رکھ سکتا ہے؟کیونکہ مرد نہ تو طلاق دیتا ہے اور نہ ہی خلع دینا چاہتا ہے اور نہ ہی بیوی کو خرچہ دیتا ہے تو کیا اس صورت میں جو ڈگری عدالت کی طرف سے جاری ہو وہ مؤثر ہوتی ہےیا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت نے طلاق کا اختیار مرد کو دیا ہے،لیکن اسے اس بات کا پابند بھی بنایا ہے کہ وہ عورت کو اس کے حقوق کی رعایت رکھتے ہوئے ضابطے کے موافق ساتھ رکھے،اگر اس کے حقوق کی رعایت کے ساتھ اسے نہیں رکھ سکتا تو اسے اچھے طریقے سے چھوڑدے،عورت کو اس طرح لٹکائے رکھنے کی ہرگز اجازت نہیں دی کہ نہ اس کے حقوق پورے کئے جائے اور نہ اسے چھوڑا جائے۔

نیز خلع کا عوض لینے کو بھی اس وقت مشروع قرار دیا ہے جب نباہ نہ ہونے میں قصور عورت کی جانب سے ہو،اگر قصور مرد کی جانب سے ہو یا دو طرفہ ہو تو پھر عورت کو تو مہر کے عوض جان چھڑانے کی اجازت ہے،لیکن مرد کے لئے خلع کا عوض لینا اور اسے استعمال کرنا جائز نہیں۔

اگر مرد بیوی کے حقوق کی رعایت رکھتے ہوئے معروف طریقے سے اسے ساتھ نہ رکھےاور نہ اسے طلاق یا خلع دے تو پھر شریعت نے قاضی کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار دیا ہے جس کا مختصراً ذکر پہلے سوال کے جواب میں آچکا۔

حوالہ جات
"رد المحتار"(ج 12 / ص 122):
"( قوله : وكره تحريما أخذ الشيء ) أي قليلا كان ، أو كثيرا .
والحق أن الأخذ إذا كان النشوز منه حرام قطعا { فلا تأخذوا منه شيئا}  إلا أنه إن أخذ ملكه بسبب خبيث ، وتمامه في الفتح ، لكن نقل في البحر عن الدر المنثور للسيوطي : أخرج ابن أبي جرير عن ابن زيد في الآية قال : ثم رخص بعد ، فقال : { فإن خفتم ألا يقيما حدود الله فلا جناح عليهما فيما افتدت به } ، قال :فنسخت هذه تلك ا هـ وهو يقتضي حل الأخذ مطلقا إذا رضيت ا هـ أي سواء كان النشوز منه أو منها ، أو منهما .
لكن فيه أنه ذكر في البحر أولا عن الفتح أن الآية الأولى فيما إذا كان النشوز منه فقط ، والثانية فيما إذا لم يكن منه فلا تعارض بينهما ، وأنهما لو تعارضتا فحرمة الأخذ بلا حق ثابتة بالإجماع ، وبقوله تعالى{ ولا تمسكوهن ضرارا لتعتدوا } وإمساكها لا لرغبة بل إضرارا لأخذ مالها في مقابلة خلاصها منه مخالف للدليل القطعي فافهم" .

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

12/جمادی الثانیہ1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب