021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
یوٹیوب چینل اور اس کی کمائی کا حکم
74862اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

میرے  ایک دوست  ہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ ایک اپنا یوٹیوب چینل بنائیں اور اس کے ذریعے دعوت و تبلیغ کا کام کریں، اب اس میں کسی چیز کی  مشہوری بھی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے پیسے بھی ملتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟ مشہوری میں بسا اوقات  غلط مواد بھی شامل ہوتا ہے  تو اس کا گناہ  چینل والے پر ہو گا؟ اس پر جو پیسے ملتے ہیں  اس کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

دیگر ذرائع ابلاغ کی طرح یوٹیوب بھی  ایک ذریعہ ابلاغ ہے، چنانچہ شرعی مفاسد سے بچتے ہوئے ، دینی مقاصد کےلیے  یوٹیوب چینل بنانا جائزہے۔

یوٹیوب چینل پر ویڈیو میں   مشہوری کےلیے جو اشتہارات چلائے جاتے ہیں، ان کی مختلف  اقسام اور کیٹیگریز   ہوتی ہیں، اور  چینل کےمالک کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ ان اشتہارات کو ان کی کیٹیگری کے حساب سے  بلاک کر سکے ، نیز چینل مالک کو یہ بھی اختیار ہوتا ہے کہ  اس کی اپلوڈ کی ہوئی ویڈیو میں جو اشتہارات چلے ہیں ، وہ ان اشتہارات کو چلنے کے بعد دیکھ سکے، اور اگر کسی اشتہار کو آئندہ کے لیے بلاک کرنا چاہے تو اسے  بلاک بھی کر سکے، اس تفصیل کے بعد شرعی حکم یہ ہے کہ  یوٹیوب چینل والے کے ذمہ لازم ہے کہ وہ ان  تما م کیٹیگریز  کے اشتہارات کو بلاک کر ے جو ناجائز و حرام کاروبار کی  مشہوری کے لیے ہوں،یا پھر وہ اشتہار ت خود ناجائز مواد پر مشتمل ہوں ، اسی طرح اگر کوئی  ناجائز اشتہارایک دفعہ ویڈیو میں استعمال ہو گیا   ہو اور بعد میں چینل کے  مالک کو اس کا علم ہوا ہو  تو اس اشتہار کو  بھی فورا بلاک کرنا ضروری ہے،نیز اگر اشتہار کا مواد اور بنیادی کاروبار جائز ہو  مگر اس کے بیک گراونڈ میں میوزک ہو  تو چینل  کےمالک پر  لازم ہے  وہ بذریعہ ای میل یا کسی دوسرے ذریعہ سے گوگل کو  میوزک نہ لگانے کا کہے،  اگر گوگل میوزک نہیں ہٹاتا تو  چینل کا مالک اپنے چینل اور ویڈیو میں  یہ تحریر کر دے کہ اشتہارات کے وقت  آواز بند کر دی جائے۔ان تمام تدابیر اور احتیاطات کے بعد اگر کسی  حرام کاروبار کا اشتہار ، یا ناجائز مواد پر مشتمل اشتہار  ویڈیو میں استعمال ہو جائے تو  چینل کا مالک گناہگار نہ ہو گا، اسی طرح تحریری  تنبیہ کے بعد بھی اگر کوئی شخص اشتہار کا میوزک سنتا ہے اور آواز بند نہیں کرتا تو اس کا گناہ بھی چینل کے مالک پر نہ ہو گا۔

ویڈیو میں چلنے والے اشتہارات سے حاصل ہونے والی آمدنی  درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز و حلا ل ہے:

  1. جس کاروبار کا اشتہارہے  وہ کاروبار جائز ہو، لہذا جو کاروبار ناجائز و حرام ہیں  ان کے اشتہارات کو فلٹر اور

بلاک کر دیا جائے۔

  1. اشتہار بذات خود بھی ناجائز مواد سے خالی ہوں، لہذا اگر  فلٹریشن اور احتیاط کے بعد بھی کسی ناجائز کاروبار کا اشتہا ر  لگ جائے یا جائز کاروبار کا کوئی ایسا اشتہار لگ جائے جو ناجائز مواد پر مشتمل ہو اور چینل کے مالک کی اس پر رضامندی اور اجازت شامل نہ ہو تو  ریویو سینٹر میں اشتہارات کا جائز ہ لے کر ناجائز اشتہارات کی آمدن صدقہ کرنا ضروری ہے۔
  2. گوگل اور چینل  کے مالک کے درمیان طے شدہ شرائط پر مکمل عمل کیا جائے۔
حوالہ جات
فقہ البیوع (۳۱۴/۱)
واما التلفزیون۔۔۔۔۔۔۔و منھم من یقول: ان الصورالتیتظھرعلی شاشتہلیستمن الصور الممنوعہ۔
الفتاوى الهندية (4/ 450)
وإذا استأجر الذمي من المسلم دارا يسكنها فلا بأس بذلك، وإن شرب فيها الخمر أو عبد فيها الصليب أو أدخل فيها الخنازير ولم يلحق المسلم في ذلك بأس لأن المسلم لا يؤاجرها لذلك إنما آجرها للسكنى. كذا في المحيط.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 349)
صوت اللهو والغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: وفي البزازية استماع صوت الملاهي كضرب قصب ونحوه حرام لقوله - عليه الصلاة والسلام - «استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر» أي بالنعمة فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لا يسمع لما روي «أنه - عليه الصلاة والسلام - أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه».
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 504)
يشترط في الإجارة أي في صحتها، أولا أن تكون المنفعة معلومة بوجه يكون مانعا للمنازعة.
انظر المادتين (200 و 405) فعليه إذا كانت المنفعة مجهولة بحيث تؤدي إلى المنازعة تكون فاسدة (الهندية) ويختلف العلم بالمنفعة باختلاف أنواع الإجارة.

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۲ جمادی الاولی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب