021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تقسیم میراث کا مسئلہ
74883میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان  کرام اس مسئلہ کے بارے میں :

غلامحمد  ( فوت شد) نے اپنی جائیداد میں سے 5 مرلے کا پلاٹ اپنی زندگی میں ہی اپنے پوتے طارق کے نام کر دیا تھا، جبکہ طارق کے باپ کا نام سعید ( فوت شد) ہے، غلا م محمد نے اپنے بیٹے سعید سے ناراضگی کی بناء پر ایسا کیا تھا ،اب طارق بھی وفات پا چکا ہے، طارق کی بیوی اور اولاد نہیں ہے، طارق کی وفات  کے وقت ا س کے والدین زندہ تھے مگر اب وہ بھی فوت ہو گئے، طارق کا ایک بھائی آصف تھا ،اب وہ بھی  فوت ہو گیا،آصف کے 2 بیٹے ،3 بیٹیاں اور بیوی  حیات ہے، اس کے علاوہ طارق کی بہن اور دوسری مرحومہ بہن کی اولاد ہے، اسی طرح طارق کی سوتیلی ماں اور باپ شریک بھائی ہے۔

مہربانی فرما کر  یہ رہنمائی فرما دیں کہ 5 مرلے کا جو پلاٹ غلام محمد نے  اپنے پوتے طارق کو دیا تھا، یہ پلاٹ شریعت کے مطابق کس کس کو ملے گا، اور کتنا حصہ ملے گا۔

نوٹ: طارق کے والدین  فو ت ہو گئے،جبکہ دو چچا اور پانچ پھو پھیاں حیات ہیں۔

وضاحت  از مستفتی: دادا نے پلاٹ ہدیہ کرتے ہوئے  اسٹام پیپر پر لکھ کر دے دیا تھا، اور پلاٹ کا  قبضہ  سعید کے پاس تھا کیونکہ طارق اس وقت چھوٹا تھا ، لہذا بیٹے کا پلاٹ باپ کے حوالے کیا گیا تھا۔نیز طارق کی وفات کے وقت  اس کے ورثاء میں سے  اس کے والدین ، ،ایک بھائی آصف  اور دو بہنیں   موجود تھیں۔

نوٹ: جن کی معرفت سے سوال جمع کروایا گیا تھا ان سے چار سے پانچ دن رابطے کے بعد بھی   محض طارق کی وفات کے وقت موجود ورثاء کا علم ہو سکا، باقی  طارق کی وفات کے بعد اس کے والدین میں سے پہلے کس کا انتقال ہوا، اور  پھر ان کے انتقال کے وقت  ان کے کون کون سے ورثا ء زندہ تھے ، ان باتوں کا علم نہ ہو سکا۔ خود مستفتی  کا تعلق جس علاقے سے ہے وہاں سگنل پرابلم ہے، اس لیے کوشش کے بعد بھی براہ راست ان سے رابطہ نہ ہو سکا، وہ کال بھی  اٹنڈ نہیں کر رہے  اور  اطلاع کے باوجود وہ خود بھی رابطہ نہیں کر رہے، اس لیے موجود معلومات کی حد تک ہی جواب مرتب کیا گیا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی شخص کا اپنی زندگی میں اور حالت صحت میں  کسی کو کوئی چیز  ہدیہ کرنا درست   اور جائز ہے، اور ہدیہ کرنے کی صورت میں ہدیہ کی ہوئی چیز پر  قبضہ دے دینے سے یہ ہدیہ مکمل ہو جاتا ہے، اور  یہ چیز اس شخص  کی ملکیت  میں داخل ہو جاتی ہے جسے ہدیہ کی گئ  ہے، لہذا صورت مسئولہ میں  غلام محمد کا اپنے پوتے  طارق کو  اپنی جائیداد میں سے 5 مرلے کاپلاٹ ہدیہ کرنا  اور  وہ پلاٹ طارق کے لیے  سعید کے قبضہ میں   دے دینا  جائزہے اور قبضہ ہو جانے کی وجہ سے  یہ ہدیہ مکمل ہو چکا ہے اور  طارق اس پلاٹ  کا مالک بن چکا ہے، لہذا یہ پلاٹ طارق کی وفات کے وقت  ا س کے ورثاء میں سے  موجود زندہ  ورثاء  پر تقسیم ہو گا۔

سوال میں مذکورہ صورت کے مطابق طارق کی وفات کے وقت اس کے ورثاء میں سے  اس کے والدین ،ایک بھائی آصف اور دو بہنیں موجود تھیں۔ ان ورثاء میں سے طارق کی میراث کے حقدار صرف اس کے والدین ہیں،  لہذا طارق کی میراث اس کے  والدین کے درمیان ہی  تقسیم کی جائیگی، اور اس صورت میں بھائی آصف اور دو بہنوں کو طارق کی میراث میں سے شرعا کوئی حصہ نہیں ملے گا۔پھر والدین کے درمیان تقسیم میراث کا طریقہ کار یہ ہے کہ  والدہ کو  میراث میں سے 16.6667%  حصہ ملے گا  اور  بقیہ میراث (83.333%) والد کو ملے گی ، چنانچہ اس حساب سے  5 مرلے کے اس پلاٹ میں بھی16.6667%  حصہ والدہ کا      ہے  اور  بقیہ  پلاٹ (83.333%) والد  کے حصہ  میں جائے  گا۔

نوٹ : سوتیلی ماں کا  میت کے ساتھ کوئی اور رشتہ نہ ہو تو محض اس رشتہ کی وجہ سے وہ مستحق میراث نہیں ہوتی۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 770)
(وللأب والجد) ثلاث أحوال الفرض المطلق وهو (السدس) وذلك (مع ولد أو ولد ابن) والتعصيب المطلق عند عدمهما والفرض والتعصيب مع البنت أو بنت الابن.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 772)
(وللأم) ثلاثة أحوال (السدس مع أحدهما أو مع اثنين من الأخوة أو) من (الأخوات) فصاعدا من أي جهة كانا ولو مختلطين والثلث عند عدمهما وثلث الباقي مع الأب وأحد الزوجين.

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۴ جمادی الاولی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب