021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جائیداداورمیراث کےمتفرق مسائل
74881میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء اکرام اس مسئلہ کے بیچ۔ میری والدہ ماجدہ کا انتقال جولائی2019 کو ہوا تھا. انھوں نے ترکہ میں ایک عدد تین منزلہ 120 گز کا مکان چھوڑا ہے. ان کے ورثہ میں تین 3 بالغ شادی شدہ بیٹے ایک 1بالغ شادی شدہ بیٹی اور ایک شوہر شامل ہیں. جبکہ میری والدہ کے والدین یعنی میرے نانا نانی فوت ہوچکے ہیں.جبکہ میری والدہ کی تین بہنیں اور دو بھائی ابھی حیات ہیں۔

گھر کے متعلق چند اہم نکات:(الف) میرے دونوں بھائیوں کے بقول اس گھر کی زمین میرے والد صاحب نے میری والدہ کو خرید کر دی اور ان کے نام کردی اور زمین کے کاغذات ان کی ملکیت میں بھی دے دیےتھے۔جبکہ میرےاورمیری چھوٹی بہن کےعلم میں جوبات ہے وہ یہ کہ ،،"یہ گھروالد صاحب نےوالدہ کے نام انکی ضد کی وجہ سے کیا تھا تاکہ فساد سے بچا جاسکے نہ کہ والدہ کو تحفتاً عطاء کیا تھا اورچونکہ وہ ایک گورنمٹ ملازم تھے جس وجہ سے ٹیکس سےبچنےکےلئےیہ زمین والدہ کےنام کردی تھی۔( اور اس بات کا تذکرہ والدہ اکثرکیا کرتی تھیں کہ اگر میں تمہارے والد سے یہ گھر اپنے نام نہ کراتی تو وہ کبھی نہیں کرتے )" اب میرے والد صاحب کے پاس سوائے اس مکان کے اور کوئی مال یامکان یا جائداد نہیں۔ (ب) اس گھر کی زمین اور بنیادوں سے لے کر تین منزلہ تعمیر تک کا تمام پیسہ میرے والد صاحب نے ہی خرچ کیا جس میں ان کے رٹائر مینٹ کے پیسے بھی شامل ہیں۔ والدہ کا کوئی اور ذریعہ معاش نہیں تھا اور نہ ہی کسی قسم کی جائدادیا مال وہ اپنے میکے سے لائیں تھیں اور نہ ہی کوئی جمع پونجی تھی۔ (ج) مکان کے تین حصہ ہیں۔ ایک حصہ میرے استعمال میں ہے اور دوسرا حصہ کرایہ پر ہے۔ جبکہ تیسرا حصہ والد صاحب کے استعمال میں ہے اور جب دو بھائی کراچی آتے ہیں تو اس حصہ کو استعمال کرتے ہیں. جبکہ گھر کے استعمال کے ضمن میں بہن کا اس گھر سے تعلق نہیں کیونکہ وہ پاکستان سے باہر ہوتی ہیں ۔ (د) مکان کو بیچنے کے لئے قانونی کارروائی جاری ہے۔ تاہم جب تک یہ مکان فروخت نہیں ہوجاتا اس صورت میں جو کرایہ اور اس کا استعمال کی شرعی حیثیت کیا ہونی چاہیے ۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تفصیلاً مطلوب ہیں ۔

 سوال نمبر ۱۔ کیا یہ مکان والدہ کے ترکہ میں آتا ہے؟ کیونکہ زمین بھی والد صاحب کے پیسوں سے خریدی گئی اورمکان کی تعمیربھی والد صاحب کے پیسوں سےہوئی؟

سوال نمبر ۲۔ اس مکان کا ایک حصہ کرایہ پر ہے جس کا کرایہ 27500 روپے ہے اس میں سے 25000ہزار کی ایک کمیٹی ڈالی گئی ہے جو 300000لاکھ روپے کی ہےاور جون 2022 میں یہ کمیٹی ختم ہوگی. اس ایک حصہ کےکرایہ اورکمیٹی کی تقسیم کاکیاشرعی طریقہ کارہوگا؟

سوال نمبر۳: دوسرا حصہ جو میرے استعمال میں ہے اور اس حصہ کا والدہ کی حیات میں ۱۰ ہزار کی رقم انکو گھر کے کرایہ کی مد میں دیتا رہا ہوں اور والدہ کی وفات کے بعد والد صاحب کو دسمبر ۲۰۲۰ تک یہ ۱۰ ہزار کی رقم ادا کرتا رہا ہوں اس کے بعد سے کرایہ کی مد میں والد صاحب کو کوئی رقم ادا نہیں کی ۔اب اسکی کیا ترتیب ہوگی ؟

سوال نمبر۴: ایک حصہ جو والد صاحب کے استعمال میں ہےاوردوبھائیوں کےجزوی استعمال میں ہےاس کی شرعی کیا ترتیب ہوگی؟

سوال نمبر۵: کیا والدہ کے دو بھائی اور تین بہن بھی اس وراثت میں شامل ہونگے؟ اگر ہونگے تو ان کا شرعی حصہ کیا ہوگا؟

سوال نمبر۶: میرے بڑے بھائی کا کہناہےکہ والدہ نے یہ وصیت کی تھی ( جو لکھی ہوئی نہیں) کہ میری بڑی پوتی کا بھی اس گھر میں حصہ ہے ۔ جبکہ سب کے علم میں ہے کہ میری والدہ اس طرح کی بات بھی کہا کرتی تھیں کی یہ گھر میر ی ایک اکلوتی بیٹی کا ہے ۔ جبکہ یہ دونوں باتیں وصیت کی صورت میں لکھی ہوئی نہیں ہے۔۲۰۱۲ میں میری والدہ کو بھولنے کی بیماری بھی ہوگئ تھی (ڈائمینشیا) ۔ اس صورت میں وصیت کاکیاشرعی حکم ہوگا ؟

سوال نمبر۷: اس گھر کےتمام معاملات میں دیکھ رہا ہوں جس میں کرایہ دار سے معاملات، گھر کی مرمت کے کام، ٹیکسیشن،کنٹونمنٹ بورڈ سے معاملات اور جو اس مکان کے ٹرانسفر کرانے کے اخراجات اور ساتھ میں میرا وقت جو ان معاملات میں خرچ ہورہا ہے ۔ کیونکہ اگران تمام معاملات میں کسی دوسرے شخص کی ذمہ داری لگائی جائے تو اس کو ہمیں کچھ سروس چارجز بھی ادا کرنے ہونگے ۔ اس کی شرعی ترتیب کیاہو گی ۔ برائےمہربانی ان تمام سوالات کے تفصیلی جواب ارسال فرما کر شکریہ کا موقع دیں ۔ جزاک اللہ خیراً۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  1. شریعت میں صرف زمین کےکاغذات کسی کےنام کرنےسے ملکیت ثابت نہیں ہوتی،بلکہ نام کرنے کےبعدیہ بھی ضروری ہےکہ زمین جس کےنام کی گئی ہے،اس کومکمل قبضہ بھی دےدیاجائے،اورہر قسم کےمالکانہ حقوق بھی منتقل کردیئےجائیں،اس طورپر کہ جس کےنام کی گئی ہےاس شخص کوزمین میں ہرقسم  کےمالکانہ تصرفات کااختیارحاصل ہو،مثلاًآگے کسی تیسرےشخص کوفروخت کرنایاھبہ کرناوغیرہ۔

لہٰذا اگر آپ کےوالد صاحب نےزمین مذکورہ شرائط کےمطابق والدہ کےنام کردیاتھااس طورپرکہ ہرقسم کےمالکانہ حقوق آپ کےوالدہ کےپاس تھیں،تویہ زمین والدہ کی ہی ترکہ شمارہوگی،البتہ اگر صرف زمین والدہ کےنام کی تھی(چاہےوہ ٹیکس وغیرہ سےبچنےکےلیےہو،یافسادسے بچنےکی غرض سےہو)مگرزمین پرقبضہ اورمالکانہ حقوق حاصل نہیں تھے(جیساکہ سائل کی طرف سےیہ بات معلوم ہوئی ہےکہ والد صاحب نےحال ہی میں یہ بیانیہ دیاہےکہ میں نے صرف دفتری معاملات میں ٹیکس وغیرہ سے بچنےکےلیےنام کیاتھا)تویہ زمین والد صاحب ہی کی ملکیت شمار ہوگی،والدہ کےترکہ میں شمارنہیں ہوگی۔

 

2. کسی شخص کےانتقال کےبعداس کےمال اوراس سےحاصل ہونےوالےمنافع میں تمام ورثہ شریک ہوتے ہیں، لہٰذا کرایہ کی مد میں حاصل ہونےوالی تمام رقوم جوکمیٹی میں ڈالی گئی اس میں تمام ورثہ کامشترک حصہ ہوگا،اورجائیداد کی تقسیم کےوقت کمیٹی میں  ادا کی جانےوالی تمام قسطوں کوبھی شامل کیاجائیگا، اورباقی رہ جانےوالی قسطوں کی ادائیگی بھی مال مشترک سےکی جائیگی۔یہ جواب اس صورت میں ہےاگرزمین کی  ملکیت والدہ کی بن گئی تھی۔

البتہ اگرزمین والدہ کی ملکیت نہیں بنی تھی توکمیٹی میں اب تک ڈالی جانےوالی تمام رقوم والدصاحب کی ملکیت  ہے، اور مابقیہ قسطیں اداکرنابھی ان پر ہی لازم ہے۔

3. کرایہ داری کےمعاملےکےبعدمقررہ مدت میں کرایہ کی ادائیگی لازم ہے،اگرکرایہ کی ادائیگی  وقت مقررہ پر نہیں کی گئی ہو،توجتنی مدت  کرایہ کی ادائیگی نہیں کی گئی،ان سب کی ادائیگی کرناشرعاً لازم ہے،وہ کرایہ دار پر دین(قرض) ہے،اورمیراث کےمال سےحاصل شدہ کرایہ بھی میراث کاحصہ بنتاہے۔مزید یہ کہ کرایہ دینےوالےیالینے والے کی موت سےکرایہ داری کا معاملہ ختم ہوجاتاہے،البتہ اگر تمام ورثہ کرایہ داری کےمعاملےکو جاری رکھنا چاہیں اورازسرنوعقد کرےتویہ جائزہے۔یہ اس صورت میں ہےجب کہ زمین والدہ کی ملکیت بن گئی ہو،ورنہ جن مہینوں کی کرایہ کی ادائیگی نہیں کی گئی،ان مہینوں کاکرایہ والد صاحب کی ملکیت ہے،ان کواداکرنالازم ہے۔

4. اگرزمین والدہ کی ملکیت تھی توان  کی تمام جائیدادورثاء کی مشترکہ ملکیت  ہے،لہٰذامیراث کی تقسیم کےوقت مکان کے اس مشترکہ حصہ کوبھی شرعاًتقسیم کرنالازم ہے۔البتہ اگرورثاءآپس کی رضامندی سےمیراث کی تقسیم کرنےکےبعداپنےاپنےحصہ پرقبضہ کرلے،پھرکسی کوھبہ کردےیابھائیوں کےمشترکہ استعمال کےلیے چھوڑدے توجائزہے۔یہ اس صورت میں ہے،اگرزمین والدہ کی ملکیت  بن گئی تھی ۔

البتہ اگر گھروالدہی کی ملکیت ہے،توزندگی میں جائیدات تقسیم کرناضروری نہیں ہے،لہٰذاوالدصاحب اور بھائی مکان کےاس حصہ سےنفع اٹھاسکتےہیں۔

5. میت کےبھائی اوربہن کو نرینہ اولاد کی موجودگی میں شرعاًمیراث سے حصہ نہیں ملتا،لہٰذا والدہ کےبہن،بھائی کا شرعاًمیراث میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

6. اگرکوئی شخص اپنےمرض الموت سےپہلے وصیت کرتاہے،تووہ شرعاًمعتبرہے،وصیت کاتحریری طورپر ہونا ضروری نہیں ہے،اگرچہ وصیت کوتحریراًلکھناافضل  ہے۔پھراگروصیت کرنےوالےکی طرف سےوصیت شدہ حصہ کی مقدار کی تعیین نہ کی گئی ہوتوورثاء اپنی صوابدید کےمطابق حصہ دےسکتےہیں۔یہ جواب اس صورت میں ہےجب کہ زمین والدہ کی ملکیت بن گئی ہو۔البتہ اگر والد صاحب نےصرف نام کیاتھا،زمین والدہ کی ملکیت میں نہیں دی تھی، توشرعاًیہ وصیت معتبر نہیں ہے،کیوں کہ کسی دوسرے شخص کےمال کی وصیت کرناشرعاًمعتبرنہیں ہے۔

 

7. ترکہ تمام ورثہ کی مشترکہ ملکیت ہوتی ہے،لہٰذااگرکوئی ایک وارث بقیہ ورثہ کی اجازت سےیاقاضی کےفیصلےکی بنیادپرجائیدادمیں مرمت وغیرہ کا کام کرواتاہے،یاکوئی اضافی اخراجات وغیرہ برداشت کرتاہے،تواس کوبقیہ ورثہ سےہرایک کےحصےکےمطابق رقم کے مطالبے کاشرعاً حق حاصل ہے،البتہ اگرورثہ کی رضا مندی یاقاضی کےفیصلےکےبغیراس میں خرچہ  کرتاہے،تووہ متبرع(نیکی کرنےوالا)شمارہوگا،بقیہ ورثہ سےخرچہ کامطالبہ کرناجائز نہیں ہے۔البتہ ٹیکس، میراث کی تقسیم کےلیےمکان کوٹرانسفر کرنےکےاخراجات وغیرہ کی ادائیگی،اسی طرح وہ تمام اخراجات جومیراث کی تقسیم کےلوازمات میں سےہیں،ان اخراجات کی ادائیگی مشترکہ ملکیت سےکی جائےگی۔

البتہ سروس چارجزکےمد میں اجرت وصول کرنا اس وقت جائزہے،جب تمام ورثاء کی طرف سےرضامندی موجود ہو۔یہ جواب اس صورت میں ہےجبکہ زمین والدہ کی ملکیت بن گئی ہو۔

اوراگرزمین والدصاحب ہی کی ملکیت ہے،تواس صورت میں اگرمکان کی مرمت،ٹرانسفر،وغیرہ ان کےحکم اوراجازت سےکی جارہی ہوتو،والد صاحب سےاس کاعوض لیناجائزہے،باقی سروسزاوراپنی محنت کی اجرت اگروالدصاحب سےطےکرلی جائے،تواس کالینابھی جائزہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 690)
فی الدرر:(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها،وإن شاغلا لا۔
وفی حاشیتہ: (قوله: بالقبض) فيشترط القبض قبل الموت، ولو كانت في مرض الموت للأجنبي كما سبق في كتاب الوقف كذا في الهامش۔
الفتاوى الهندية (4/ 377)
ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا، هكذا في المحيط. والقبض الذي يتعلق به تمام الهبة وثبوت حكمها القبض بإذن المالك، والإذن تارة يثبت نصا وصريحا وتارة يثبت دلالة فالصريح أن يقول: اقبضه إذا كان الموهوب حاضرا في المجلس ويقول اذهب واقبضه إذا كان غائبا عن المجلس ثم إذا كان الموهوب حاضرا، وقال له الواهب: اقبضه فقبضه في المجلس أو بعد الافتراق عن المجلس صح قبضه وملكه قياسا واستحسانا۔
الفتاوى التاتارخانیة(14/431)
"وفي المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته وأن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، وكذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار". بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/201)
 فهو ثبوت الملك في المنفعة للمستأجر، وثبوت الملك في الأجرة المسماة للآجر؛ لأنها عقد معاوضة إذ هي بيع المنفعة، والبيع عقد معاوضة، فيقتضي ثبوت الملك في العوضين.
الفتاوى الهندية (4/ 413)
ثم الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها، كذا في شرح الطحاوي. وكما يجب الأجر باستيفاء المنافع يجب بالتمكن من استيفاء المنافع إذا كانت الإجارة صحيحة حتى إن المستأجر دارا أو حانوتا مدة معلومة ولم يسكن فيها في تلك المدة مع تمكنه من ذلك تجب الأجرة، كذا في المحيط.
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5/ 144)
(قوله في المتن وتنفسخ بموت أحد المتعاقدين) قال الأتقاني وذلك لأن المؤجر إذا مات ينتقل
الملك منه إلى ورثته وعقد الإجارة اقتضى استيفاء المنافع من ملك المؤجر لا من ملك غيره فلو بقي عقد الإجارة يلزم استيفاء المنافع من ملك الغير، وهذا لا يجوز،
تكملة حاشية رد المحتار (2/ 116)
الارث جبري لا يسقط بالاسقاط.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 781)
(ويسقط بنو الأعيان) وهم الإخوة والأخوات لأب وأم بثلاثة (بالابن) وابنه وإن سفل ۔
المبسوط (31/ 169)
ولو أوصى له بجزء من ماله أو بنصيب من ماله أو بطائفة من ماله أو ببعض ماله أو بشقص من ماله أعطاه الورثة ما شاءوا ؛ لأنه سمى له شيئا مجهولا وليس لنا عبارة من جنس ما سمى ليصرف مقدار المسمى بالرجوع إلى عبارة الموصي ، وجهالة الموصى به لا تمنع صحة الوصية والوارث في
البيان يقام مقام المورث۔
الفتاوى الهندية (6/ 90)
 أما ركنها فقوله أوصيت بكذا لفلان وأوصيت إلى فلان، كذا في محيط السرخسي۔
(الموسوعۃ الفقہیۃ 43/257)
ذهب الفقهاء إلى أنه يستحب للمسلم إذا أوصى أن يكتب وصيته لقوله صلى الله عليه وسلم : " ما حق امرئ مسلم له شيء يوصي فيه ، يبيت ثلاث ليال إلا ووصيته مكتوبة عنده "
مجلة الأحكام العدلية (ص: 250)
المادة (1309) إذا عمر أحد الشريكين الملك المشترك بإذن الآخر وصرف من ماله قدرا معروفا فله الرجوع على شريكه بحصته أي أن يأخذ من شريكه مقدار ما أصاب حصته من المصرف.
المادة (1311) إذا عمر أحد الملك المشترك من نفسه أي بدون إذن من شريكه أو القاضي يكون متبرعا أي ليس له أن يأخذ من شريكه مقدار ما أصاب حصته من المصرف سواء كان ذلك الملك قابلا للقسمة أو لم يكن.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 314)
الاحتمال الأول - أن يكون المعمر صرف بإذن وأمر الشريك الآخر من ماله قدرا معروفا وعمر الملك المشترك للشركة أو أنشأه مجددا فيكون قسم من التعميرات الواقعة أو البناء ملكا للشريك الآمر ولو لم يشترط الشريك الآمر الرجوع على نفسه بالمصرف بقوله: اصرف وأنا أدفع لك حصتي من المصرف.۔۔
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 315)
الاحتمال الرابع - إذا عمر أحد الشريكين المال المشترك بدون إذن شريكه على أن يكون ما عمره لنفسه فتكون التعميرات المذكورة ملكا له وللشريك الذي بنى وأنشأ أن يرفع ما عمره من المرمة الغير المستهلكة. انظر شرح المادة (529) ما لم يكن رفعها مضرا بالأرض ففي هذا الحال يمنع من رفعها.

 محمدعمربن حسین احمد

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

14 جمادی الاول1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عمر ولد حسین احمد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب