021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
یکطرفہ طور پر شرکت ختم کرنے کا حکم
74877شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم، کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں:

 میں محمد طارق خان  اور میرے چھوٹے بھائی محمد آصف خان نے 2004میں  ایک کاروبار شروع کیا جس میں ہم دونوں بھائی برابری کے حساب سے شراکت دار تھے، وہ کاروبار 2006 میں ختم ہو گیا۔

بعد ازاں میں محمد طارق خان نے  مل اسکیل ( آئرن پاوڈر) کی برآمد کا کام شروع کیا ، اور اس میں اپنے چھوٹ بھائی آصف خان کو شامل کیا، میرا بھائی ایک سال تک میرے ساتھ کام کرتا رہا، 2008 میں میرے بھائی کی شادی ہو گئی،لیکن میرے بھائی کا اس کی بیوی کے ساتھ نباہ نہ ہو سکا اور اس کی نجی زندگی خراب ہو گئی اور وہ کاروبار میں توجہ نہ دے سکا اور کاروباری معاملات سے الگ ہو گیا۔

2011میں میرا بھائی دوبارہ کاروبار میں آیا اور اپنی مرضی سے کاروبار کرنے لگا، باوجود میری شراکت داری کے میرا چھوٹا بھائی اپنی مرضی چلاتا رہا جس کی وجہ سے کمپنی کو کافی نقصان ہوا، اب جب میں اپنے بھائی کو اس کا 50% پچاس فیصد حصہ دے کر الگ کرنا چاہ رہا ہوں تو  وہ مجھے بولتا ہے کہ چونکہ میں نے اس کے ساتھ کام شروع کیا ہے اس وجہ سے ہم لوگ اس طر ح الگ نہیں ہو سکتے،لہذاجب تک میں یہ کام کروں گا مجھے اس کو   ساتھ لے کر چلنا پڑے گا۔

میرے بھائی نے جب سے کوئی کام کیا ہے، ہمیشہ نقصان پہنچایا ہے، کبھی کمپنی کو  کچھ نہیں دیا۔

چونکہ وہ میرا چھوٹا بھائی ہے،اس لیے میں اس کو کاروبار کے منافع سے کچھ حصہ دینا  چاہتا ہوں،لیکن میرا بھائی بولتا ہے کہ آپ جب  تک یہ کام کرو گےآ پ کو برابری کے حساب سے مجھے حصہ دینا پڑے گا۔

آ ج میں ان کو کمپنی کا   /50%پچاس فیصد حصہ دے کر الگ کرنا چاہتا ہوں، اور واپس/25% پچیس فیصد حصہ ان کا لگا کر  ان کو/25% پچیس فیصد  نفع دینا چاہتا ہوں۔

برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں، کیا میں اس کو کاروبار سے الگ کر سکتا ہوں یا اس کے منافع  کو کم کر سکتا ہوں؟ میں نے دارالعلوم کراچی سے فتاوی لیے ہیں ، جن کی کاپی ساتھ میں لگا دی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی بھی کاروبار کو ایک ساتھ شراکت داری کے تحت  شروع کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ   اس کے بعد اس کاروبار   کو یا اس میں شراکت داری کو  کوئی شریک   یکطرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتا، بلکہ جس طرح سب شرکاء  باہمی رضامندی سے شرکت کے معاملہ کو ختم  کر کے شراکت داری اور پارٹنر شپ کو ختم کر سکتےہیں، اسی طرح کوئی ایک شریک بھی اس  معاملہ کو ختم کرنا چاہے تو ختم کر سکتا ہے ، اور ایسی صورت میں  دوسرے شریک کو اس سے انکار کا  کوئی حق نہیں ہے،البتہ یکطرفہ طور پر شرکت ختم کرنے کی صورت میں دوسرے شریک کو اطلاع دینا لازمی ہے ، اور اس اطلاع سے پہلے شرکت کا عقد ختم نہ ہو گا۔

صورت مسئولہ میں اگر محمد طارق خان  پچاس فیصد50%/  حصہ دے کر محمد آصف  خان کو الگ کر کے  اس شرکت کو ختم کرنا چاہتا ہے تو اسے اس کا پورا حق    حاصل ہے، اور محمد آصف  کو اس سے انکار کا شرعا کوئی  حق  نہیں ہے۔

 اسی طرح شراکت داری ختم کرنے کے بعد اگر محمد طارق خان   دوبارہ سے نئے کنٹریکٹ اور معاہدہ کے تحت   محمد آصف خان  کو  اس کی رضامندی سے اپنے کاروبار میں   پچیس فیصد25%/  نفع نقصان کی حد تک شریک کرنا  چاہتاہے تو  یہ صورت بھی جائز اور درست ہے، البتہ اتنی  بات یاد رکھنی  چاہیے کہ شرکت میں   نقصان ہمیشہ  سرمائے اور پرنسپل  کے تناسب سےہی تقسیم ہو گا  جبکہ نفع  کو سرمائے کے تناسب سے طے کرنا ضروری نہیں ہے ، بلکہ  نفع کا تناسب  باہمی رضامندی سے کوئی بھی طے کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ جس فریق کے کام نہ کرنے کی شرط  رکھی گئی ہو  اس کے نفع کا تناسب ا س کےسرمائے کے تناسب سے زائد نہ ہو۔

شرکت کا یہ معاملہ  ختم ہو جانے کے بعد اگر  محمد آصف خان   دوبارہ  اس کاروبار میں محمد طارق خان  کی طے شدہ شرائط کے مطابق  شریک  نہیں ہونا چاہتا اور  کمپنی کے اسی نام کو استعمال کرتےہوئے   خود ہی الگ سے کاروبار کرنا چاہتا ہے تو  محمد آصف  خان  کےلیے یہ بھی جائز ہے۔

حوالہ جات
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 370)
المادة (1353) - (تنفسخ الشركة بفسخ أحد الشريكين، ولكن يشترط أن يعلم الآخر بفسخه، ولا تنفسخ الشركة ما لم يعلم الآخر بفسخ الشريك)....ولا يشترط في حصة الفسخ رضاء الآخر (البحر) .

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۴ جمادی الاولی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب