74889 | جنازے کےمسائل | تعزیت کے احکام |
سوال
ہم نے علماء سے یہ بھی سنا ہے کہ فوتگی والے اپنے لئے تین دن تک اپنے مال سے طعام کا انتظام نہیں کریں گے،بلکہ رشتہ دار انتظام کریں گے،پوچھنا یہ ہے کہ اس کمیٹی میں تو فوتگی والے گھر کے پیسے بھی شامل ہوتے ہیں،کیا یہ کمیٹی شریعت کے لحاظ سے جائز ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
فوتگی کے موقع پر اہل میت کے اقرباء اور پڑوسیوں کو ان کے لئے کھانے کے انتظام و انصرام کی ترغیب اس لئے نہیں دی گئی کہ اس دن میت کے گھر میں یا اہل میت کے لیے کھانا پکانا ممنوع ہے،بلکہ اس وجہ سےہے کہ غم و حزن اور تجہیز و تکفین کی مشغولیت کی وجہ سے ان کو کھانا پکانے کا موقع نہیں ملے گا، اس لئےجس رقم سے فوتگی کے موقع پر کھانے وغیرہ کا بندوبست کیا جاتا ہے اس میں اہل میت کی رقم شامل ہونے میں شرعا کوئی حرج نہیں۔
حوالہ جات
"الدر المختار " (6/ 665):
"أوصى (بأن يتخذ الطعام بعد موته للناس ثلاثة أيام فالوصية باطلة) كما في الخانية عن أبي بكر البلخي، وفيها عن أبي جعفر: أوصى باتخاذ الطعام بعد موته ويطعم الذين يحضرون التعزية جاز من الثلث، ويحل لمن طال مقامه ومسافته لا لمن لم يطل ولو فضل طعام إن كثيرا يضمن وإلا لا اهـ.
قلت: وحمل المصنف الأول على طعام يجتمع له النائحات بقيد ثلاثة أيام فتكون وصية لهن فبطلت والثاني على ما كان لغيرهن".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
15/جمادی الاولی1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |