021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جائیداد کی تقسیم
77442میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام درج ذیل مسائل کےبارے میں کہ زید نے دو شادیاں کیں زوجہ اول سے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں اورزوجہ ثانیہ (بیوا)چار بیٹے پہلے شوہرسے اور بیٹا زید سے ہے،زید جس مکان میں رہائش پزیر تھا،وہ مکان اسنے اپنی زوجہ اول کے نام کردیا اور زوجہ اول نے اس مکان پر قبضہ بھی کر لیا،بعد میں زوجہ اول کا انتقال ہوگیااوراب وہ مکان زید اور اس کے چار بیٹوں کے استعمال میں ہے میراثا تقسیم نہیں ہوا،جبکہ ایک اور مکان زید نے اپنی زوجہ ثانیہ کے رہنے کے لیے بنایا یہ کہہ کر کہ اس کےلیے ہی بنایا گیا ہے،لیکن اس کے نام نہیں کیا بلکہ بعد میں لڑائی ہونے پر اپنے نام سے اپنی زوجہ اول کے ایک بیٹے کے نام کردیا،لیکن اس بیٹے نے اس پر قبضہ نہیں کیا،اب وہ مکان زوجہ ثانیہ کے استعمال میں ہےاور زوجہ ثانیہ نے اس مکان میں اپنی ذاتی رقم سے وقتاً فوقتاً کافی تعمیرات بھی کر والی ہیں۔ اب زید کا وہ بیٹا جس کے نام مکان ہے چاہتا ہے کہ باپ کی زندگی میں باپ کی تمام جائداد کو شرعاً تقسیم کر دے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل امور مطلوب جواب ہیں:(۱) زوجہ اول کی میراث کی تقسیم (ورثا میں زوج، چار بیٹے اور دو بیٹیاں) (۲) زیدکی جائیداد کی تقسیم باطریق شریعت (۳) مکان ثانی کی ملکیت کا تعین کیا یہ زوجہ ثانیہ کےبیٹے کے نام کی جا سکتی ہے؟ جیسا کہ زید چاہتا ہے اور اگر نہیں تو پھر اس کا حکم؟ (۴)زوجہ ثانیہ کی مکان پر لگائی گئی رقم کا حکم کہ وہ جائیداد سے الگ کی جا ئیگی یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ا۔اول مرحومہ کی متروکہ(مملوکہ) منقولہ وغیرمنقولہ تمام اموال وجائیداد میں سے اول انکی تجہیز وتکفین کاخرچ( بشرطیکہ کسی نے اپنی طرف سے نہ کیا ہو۔) پھر اگر ان پر کوئی قرضہ ہو تو اس کی ادائیگی لازم ہے،اس کے بعداگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی ترکہ میں سے اسے پورا کرنا ضروری ہے، اس کے بعدبقیہ متروکہ مال میں سے ایک چوتھائی اس کے شوہر(زید) کو ملے گا اور اس بعد بقیہ ترکہ  کل دس برابر حصوں میں تقسیم ہوگا ،جن میں سے ہر ایک بیٹے کو دو دو حصے اور ہر ایک بیٹی کو ایک ایک حصہ ملے گا۔

۲۔زید کی جائیداد اگر زندگی میں تقسیم کی جانی ہے تو وہ میراث نہیں، بلکہ ہدیہ یعنی گفٹ ہے اور اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اس کی تقسیم میں تمام اولاد میں برابری ضروری ہے،یعنی تمام بچوں اور بچیوں کو برابر دیا جاناضروری ہے اوربیوی کا نفقہ تا حیات شوہر کے ذمہ ہے ،لہذا اس کے لیے اس کا بندوبست بھی ضروری ہوگا۔

۳۔صرف کاغذات میں نام کرنے سے جائیداد منتقل نہیں ہوتی،لہذا زید  ہی اس مکان کا مالک ہے،لیکن اس میں بھی تمام اولاد(سابقہ بیوی اور دوسری بیوی کے اولاد) کے درمیان برابری ضروری ہے،بغیر کسی معقول وجہ کےکسی ایک کو کم دوسرے سے زیادہ دینا جائز نہیں، البتہ دینداری یا خدمت گزاری یا اس کی زیادتی کی وجہ سے کسی کو زیادہ دینے میں حرج نہیں،لیکن کسی کو بالکل محروم کرنا کسی صورت جائز نہیں، الا یہ کہ کوئی فاسق اورنافرمان ہواوراس سےمال گناہوں میں خرچ کئے جانے کااندیشہ ہو۔

۴۔جو رقم مکان پر دوسری بیوی نے خرچ کی اور اس کی وجہ سے مکان کی قیمت میں اضافہ بھی ہو تو اس کو مکان کی قیمت میں سے اس قدر رقم بھی ادا کی جائے گی۔

حوالہ جات
۔۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۶ جمادی الاول۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب