021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تقسیم میراث کا ایک مسئلہ
74976میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

خاتون مرحومہ ( مشرف بیگم) کا انتقال  بروز ہفتہ بتاریخ  27/11/21 کو ہو ا، ان کی کوئی اولاد نہیں،ان کے شوہر  2010 میں فوت ہو گئے تھے، مرحومہ کے دو بھائی ہیں جو مرحوم ہیں ، اور ایک بہن حیات ہیں۔

۱۔۔ بڑے بھائی اعظم فاروق  2007میں فوت ہوئے تھے جن کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔

۲۔۔چھوٹے بھائی  معظم فاروقی  2019 میں فوت ہوئے جن کی وارث ایک بیوہ ہے، دو بیٹے اورایک بیٹی ہے۔

۳۔۔چھوٹی بہن شمشاد بیگم( بیوہ ، حیات) جنکے ورثاء تین بیٹے اور دو بیٹیا ں ہیں۔

اب معلوم یہ کرنا  ہے کہ مرحومہ مشرف بیگم (کلالہ) کے ترکے کی وراثت کی شرعی تقسیم کا نصاب کیا ہو گا؟

دو بھائی مرحوم، ایک بہن حیات۔ اس کی وراثت کی شرعی تقسیم  سے متعلق آگاہی فرمائیں۔

وضاحت از مستفتی: مرحومہ کے یہی رشتہ دار اور یہی ورثاء ہیں ، ان کے علاوہ کوئی رشتہ دار نہیں ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صور ت مسئولہ میں خاتون مرحومہ  مشرف بیگم کے  بڑے بھائی اعظم فاروق ، چھوٹے بھائی معظم فاروقی،  چھوٹے بھائی کی بیوہ ،بھتیجیاں، بھانجے ،  اور بھانجیوں کا  مرحومہ مشرف بیگم کی میراث میں کوئی حصہ نہیں ہے، البتہ خاتون مرحومہ مشرف بیگم کی بہن شمشاد بیگم  اور بھتیجے  مرحومہ  کی میراث کے   حقدار ہیں اور  مرحومہ کی ساری میراث انہی کے درمیان تقسیم کی  جائیگی ، جس کی صورت یہ ہو گی کہ  مرحومہ کی میراث کے کل آٹھ حصے کیے جائیں گے، جن میں سے چار حصے  مرحومہ کی بہن شمشاد  بیگم  کو اور بقیہ چار حصے مرحومہ کے چار بھتیجوں  کے درمیان برابر تقسیم کر لیے جائیں گے یعنی ہر بھتیجے کو  آٹھ حصوں میں سے ایک حصہ ملے گا۔

فیصد کے اعتبار سے میراث کی تقسیم یوں ہو گی کہ  شمشاد بیگم کو کل ترکہ کا   50%  حصہ   جبکہ   چار بھتیجوں میں سے ہر بھتیجے کو کل ترکہ کا  12.50%   حصہ ملے گا۔

ذیل کے نقشہ میں یہ تفصیل مزید وضاحت سے دکھائی گئی ہے:

فیصدی حصے

عددی حصے

ورثہ

نمبر شمار

50%

4

بہن شمشاد بیگم

1

12.50%

1

بھتیجا1

2

12.50%

1

بھتیجا2

3

12.50%

1

بھتیجا3

4

12.50%

1

بھتیجا4

5

 

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 773)
(والثلثان لكل اثنين فصاعدا ممن فرضه النصف) وهو خمسة البنت وبنت الابن والأخت لأبوين والأخت لأب والزوج (إلا الزوج) لأنه لا يتعدد، والله تعالى أعلم.                      
فصل في العصبات العصبات النسبية ثلاثة عصبة بنفسه وعصبة بغيره وعصبة مع غيره (يحوز العصبة بنفسه وهو كل ذكر) فالأنثى لا تكون عصبة بنفسها بل بغيرها أو مع غيرها (لم يدخل في نسبته إلى الميت أنثى) فإن دخلت لم يكن عصبة كولد الأم
فإنه ذو فرض وكأبي الأم وابن البنت فإنهما من ذوي الأرحام (ما أبقت الفرائض) أي جنسها (وعند الانفراد يحوز جميع المال) بجهة واحدة. ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل ثم أصله الأب ويكون مع البنت) بأكثر (عصبة وذا سهم) كما مر (ثم الجد الصحيح) وهو أبو الأب (وإن علا) وأما أبو الأم ففاسد من ذوي الأرحام (ثم جزء أبيه الأخ) لأبوين (ثم) لأب ثم (ابنه) لأبوين ثم لأب (وإن سفل) تأخير الإخوة عن الجد وإن علا قول أبي حنيفة وهو المختار للفتوى خلافا لهما وللشافعي.
قيل وعليه الفتوى (ثم جزء جده العم) لأبوين ثم لأب ثم ابنه لأبوين ثم لأب (وإن سفل ثم عم الأب ثم ابنه ثم عم الجد ثم ابنه) كذلك وإن سفلا فأسبابها أربعة: بنوة ثم أبوة ثم أخوة ثم عمومة (و) بعد ترجيحهم بقرب الدرجة (يرجحون) عند التفاوت بأبوين وأب كما مر (بقوة القرابة فمن كان لأبوين) من العصبات ولو أنثى كالشقيقة مع البنت تقدم على الأخ لأب (مقدم على من كان لأب) لقوله - صلى الله عليه وسلم - «إن أعيان بني الأم يتوارثون دون بني العلات» . والحاصل: أنه عند الاستواء في الدرجة يقدم ذو القرابتين وعند التفاوت فيها يقدم الأعلى.

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۶ جمادی الاولی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب