021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تقسیم میراث کا مسئلہ
74977میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم، ہم چھ بہنیں  اور دو بھائی ہیں، سمن آباد بلاک ۱۸ میں  ۱۲۰ گز  کا گھر امی کے نام ہے،ابو  کے انتقال کو بیس  سال ہو  گئے ہیں، امی کے انتقال سے  پہلے دو بڑی بہنوں  کا بھی  انتقال ہو گیا ہے۔ امی کے انتقا ل کے ڈیڑھ سال بعد  چھوٹے بھائی  کا بھی انتقال ہو گیا ہے، اب ہم چار بہنیں اور ایک بڑے بھائی ہیں۔

ہم پانچ بہنیں اور دو بھائی شادی شدہ بچوں والے ہیں، ایک بہن طلاق شدہ جو کہ  امی کے ساتھ رہتی تھی  اور جاب کرتی ہے، ابو کے انتقال کے بعد  دونوں بھائی صرف گیس بجلی وغیرہ کے بل ادا کیا کرتے تھے،امی کو کوئی مہینہ نہیں دیتے تھے ، بہن جاب کر کے  امی اور اپنا خرچہ پورا کرتی تھی۔

گراونڈ فلور پر چھوٹے بھائی  جن کا انتقال ہو گیا ، اپنی فیملی کے ساتھ رہتے ہیں،فرسٹ فلور پر دو کمروں میں امی اور بہن رہتی ہیں اور دو کمرے بڑے بھائی کے پاس ہیں جبکہ انہوں نے امی کی پرمیشن کے بغیر  سیکنڈ فلور پر گھر بنا لیا تھا پریکاسٹ کی چھت کا ، امی کے انتقال کے بعد  بھائی نے اپنی چھوٹی بہن کو اپنے ساتھ رکھنے سے انکار کر دیا ہے اور وہ جاب کرتی ہے، کھانا پینا بھی  الگ ہے، اکیلے رہتی ہے چھوٹے بھائی کی فیملی کے ساتھ ، بڑے بھائی نے کسی سوسائٹی میں اپنا گھر خرید لیا ہے اور وہ امی کے گھر سے نکل گئے ہیں ،لیکن وہ نہ تو گھر کو بیچنے دے رہے ہیں اور نہ قبضہ چھوڑ رہے ہیں، کیونکہ وہ وراثت کی تقسیم نہیں کرنا چاہتے،قبضہ چاہتے ہیں، امی نے اپنے سب بچوں کی شادی خود اپنے پیسوں سے کی اور تما م زیور  اور روپیہ  اپنی اولاد وں پر لگا دیا، اب ان کے پاس اس گھر کےسوا کچھ بھی نہیں ہے۔

وراثت کس طرح تقسیم ہو گی؟ جن بہنوں کا امی سے پہلے انتقال  ہو گیا ہے کیا ان کا بھی حصہ ہے؟ اور جن بھائی کا انتقال امی کے انتقال کے بعد ہوا ہے ان کا کتنا حصہ ہے ؟

وضاحت از مستفتیہ:  بڑے بھائی نے سیکنڈ فلور پر محض دو کمرے اپنے پیسوں سے بنوائے تھے ، اور امی کی پرمیشن نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ  امی کو وہ کمرے پسند نہیں آئے تھے، البتہ امی راضی ہو گئ تھیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

میراث میت کے صرف ان ورثاء کے درمیان تقسیم کی جاتی ہے جو میت کی وفات کے وقت زندہ ہوں، لہذا وہ  رشتہ دار جو میت کی وفات سے پہلے ہی فوت ہو جائیں، ان کا میراث میں کوئی حصہ نہیں ہوتا ،  اس کے برعکس اگر   میت کی وفات کے وقت موجود ورثاء میں سے  کسی کا بعد میں انتقال ہو جائے تو اس سے  اس کا میراث میں ثابت شدہ حق ختم نہیں ہو گا، بلکہ  میراث میں سے اس کا حصہ اس کے ورثاء کی طرف منتقل ہو جائیگا۔

صورت مسئولہ میں  آپ کی ان دو بڑی  بہنوں کا میراث میں کوئی حصہ نہیں ہے جن کا انتقال آپ کی امی کی وفات سے پہلے  ہو چکا ہے،البتہ جس  چھوٹے بھائی  کا انتقال آپ کی امی کی وفات کے  ڈیڑھ سال بعد ہوا ہے  اسے آپ کی امی کی میراث میں سے حصہ ملے گا ، جس کی صورت یہ ہو گی کہ ان کو ملنے والاحصہ ان کے ورثاء کی طرف منتقل کر دیا جائیگا۔

تقسیم وراثت کا طریقہ کار یہ ہے کہ گھر کی موجودہ قیمت لگا کر اس میں سے جو رقم سیکنڈ فلور کے  ان دو کمروں کے ملبے کے  مقابلے میں آرہی ہو جو بڑے بھائی نے بنوائے تھے، وہ بڑے بھائی کے حوالے کر دی جائے اور بقیہ رقم  کو آٹھ برابر حصوں میں تقسیم کر دیا جائے، جن میں سے  امی کی وفات کے وقت موجود چار بہنوں میں سے ہر ایک کو ایک حصہ دے دیا جائے ،بڑے بھائی کو   دو حصے دیے جائیں اور چھوٹے بھائی کے دو حصے اس کے ورثاء کی طرف منتقل کر دیے جائیں۔

فیصد کے اعتبار سے تقسیم یوں ہو گی کہ   چار بہنوں میں سے ہر ایک کو گھر کی  موجودہ قیمت میں سے   سیکنڈ فلور کے  دو کمروں کے ملبے  کی رقم جدا کر لینے کے بعد بچ  جانے والی رقم میں سے  12.5% رقم ملے گی،  بڑے بھائی کو  25% رقم ملے گی اور چھوٹے بھائی  کو ملنے والی  25%  رقم اس کے ورثاء کی طرف منتقل ہو جائیگی۔

ذیل کے نقشے میں یہ تفصیل مزید وضاحت سے دکھائی گئ ہے:

فیصدی حصے

عددی حصے

ورثہ

نمبر شمار

25%

2

بڑا بھائی

1

25%

2

چھوٹا بھائی

2

12.50%

1

بہن

3

12.50%

1

بہن

4

12.50%

1

بہن

5

12.50%

1

بہن

6

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 773)
فصل في العصبات العصبات النسبية ثلاثة عصبة بنفسه وعصبة بغيره وعصبة مع غيره (يحوز العصبة بنفسه وهو كل ذكر) فالأنثى لا تكون عصبة بنفسها بل بغيرها أو مع غيرها (لم يدخل في نسبته إلى الميت أنثى) فإن دخلت لم يكن عصبة كولد الأم فإنه ذو فرض وكأبي الأم وابن البنت فإنهما من ذوي الأرحام (ما أبقت الفرائض) أي جنسها (وعند الانفراد يحوز جميع المال) بجهة واحدة. ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل ثم أصله الأب ويكون مع البنت) بأكثر (عصبة وذا سهم) كما مر (ثم الجد الصحيح) وهو أبو الأب (وإن علا) وأما أبو الأم ففاسد من ذوي الأرحام (ثم جزء أبيه الأخ) لأبوين (ثم) لأب ثم (ابنه) لأبوين ثم لأب (وإن سفل) تأخير الإخوة عن الجد وإن علا قول أبي حنيفة وهو المختار للفتوى خلافا لهما وللشافعي

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۶ جمادی الاولی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب