021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دکان کی مشہوری کے عوض پیسے لینا
75029خرید و فروخت کے احکامحقوق کی خریدوفروخت کے مسائل

سوال

کیا ٹھیکہ کی خریدوفروخت جائز ہے؟ اس طور پر کہ کوئی شخص کسی کرایہ کی دکان کو اپنی محنت سے مشہور کرے،پھر دوسرا شخص آکر اسے کچھ رقم دے اور دکان اپنے لئے چھڑا لے،اس بارے میں کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

دو چیزوں کا حکم الگ ہے:ایک  ہے تجارتی نام (trademark) اور دوسرا  ہےحق استئجار، یعنی کرایہ داری کا حق،تجارتی نام اگر باقاعدہ رجسٹرڈ کروایا گیا ہو تو اسے فروخت کیا جاسکتا ہے اور اگر رجسٹرڈ نہ کروایا گیا ہو تو پھر اسے بیچا نہیں جاسکتا،بلکہ دوسرے کے حق میں دستبردار ہونے کے بدلے اس کا عوض لیا جاسکتا ہے۔

اسی طرح حق استئجار یعنی دوسرے کے حق میں اپنے کرایہ داری کے حق سے دستبردار ہونے کا عوض بھی لیا جاسکتا ہے،بشرطیکہ دستبردار ہونے والے شخص کا دکان یا مکان کے مالک سے کئے گئے معاہدے (ایگریمنٹ)کی مدت ابھی باقی ہو۔

لہذا مذکورہ صورت میں اگر پہلے شخص نے محنت کرکے اپنا کوئی خاص نام مارکیٹ میں متعارف کرواکر اسے باقاعدہ رجسٹرڈ بھی کروایا ہو تو پھر وہ اس نام کو بیچ کر اس کے عوض قیمت لے سکتا ہے اور اگر اس نے اس نام کو باقاعدہ رجسٹرڈ نہ کرایا ہو تو پھر وہ دوسرے کے حق اس نام سے دستبردار ہونے کا عوض تو وصول کرسکتا ہے،لیکن اسے بیچ نہیں سکتا اور اگر اس دکاندار نے اپنا کوئی نام مارکیٹ میں متعارف نہ کرایا ہو تو پھر محض اس جگہ( دکان) کی مشہوری کا عوض وہ نہیں لے سکتا۔

تاہم اگر دکان کے مالک سے کئے گئے معاہدے کی مدت ختم ہونے میں ابھی وقت باقی ہو تو پھر اپنے کرایہ داری کے حق سے دستبردار ہونے کا عوض وصول کرنے کی اسے گنجائش ہوگی۔

نیز مذکورہ بالا صورتوں میں سے اگر کوئی صورت عوض وصول کرنے کی نہ بن رہی ہو تو ایک صورت یہ بھی ہے کہ اگر دکان میں سامان موجود ہو تو اس سامان کی قیمت عام قیمت سے زیادہ لگالی جائے،لیکن معاملہ کرتے وقت مکمل قیمت کو سامان کا عوض قرار دیا جائے،جگہ کی مشہوری کا نہیں۔  

حوالہ جات
"الدر المختار"(4/ 518):
"وفي الأشباه لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة وعلى هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف، وفيها في آخر بحث تعارض العرف مع اللغة. المذهب عدم اعتبار العرف الخاص لكن أفتى كثير باعتباره) وعليه فيفتى بجواز النزول عن الوظائف بمال".
"مجمع الضمانات" (ص: 453):
"أكثر أهل السوق إذا استأجروا حراسا وكره الباقون، فإن الأجرة تؤخذ من الكل كذا في العادة المطردة من الأشباه، وفيها أقول على اعتبار العرف الخاص قد تعارف الفقهاء بالقاهرة النزول عن الوظائف بمال يعطى لصاحبها، وتعارفوا ذلك فينبغي الجواز، وأنه لو نزل له وقبض منه المبلغ، ثم أراد الرجوع عليه لا يملك ذلك ".
"فقہ البیوع"(1/ 277):
"ویبدو لھذا العبد الضعیف عفااللہ عنہ أن حق الاسم التجاری والعلامات التجاریة وإن کا فی الأصل حقا مجردا غیر ثابت فی عین قائمة ولکنہ بعد التسجیل الحکومی الذی یتطلب جھدا کبیرا وبذل أموال جمة والذی تحصل لہ بعد ذلک صفة قانونیة تمثلھا شھادات مکتوبة بید الحامل و فی دفاتر الحکومة أشبہ الحق المستقر فی العین والتحق فی عرف التجار بالأعیان فینبغی أن یجوز الاعتیاض عنہ علی وجہ البیع أیضا ولا شک أن للعرف العام مجالا فی إدراج بعض الأشیاء فی الأعیان؛ لأن المالیة کمایقول ابن عابدین رحمہ اللہ تثبت بتمول الناس".
"بحوث فی قضایا فقھیة معاصرة" (ص: 116):
"المختار عند الحنفیة أن حق الوظیفة وإن کان لایجوز بیعہ ولکن یجوز النزول عنہ بمال وکذلک حق استئجار الدار أو الحانوت لایجوز بیعہ ولکن یجوز التنازل عنہ بعوض مالی".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

18/جمادی الاولی1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب