021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میری طرف سے فارغ ہے، طلاق دیدی، میری طرف سے فارغ ہے
75006طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

ہمارے گھر کے جھگڑے میں میری بیگم روٹھ کر میکے چلی گئی۔ امی نے کہا میں اسے لینے جارہی ہوں۔ میں نے کہا: "نہیں جاؤ، میری طرف سے فارغ ہے"۔ دو چار دن کی خاموشی کے بعد پھر جھگڑے شروع ہوئے۔ پھر میں نے اس کی امی کو فون کیا، اس سے میں نے کہا آپ سن تو رہی ہو: "میں نے آپ کی بیٹی کو طلاق دیدی، میری طرف سے فارغ ہے، آپ اپنا انتظام کرلو"۔ میری دو بیٹیاں ہیں۔ اس بات کو چار ماہ ہوگئے ہیں۔ کیا اب صلح کی کوئی گنجائش ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں جب آپ نے اپنی والدہ سے کہا "نہیں جاؤ، میری طرف سے فارغ ہے" تو اس سے آپ کی بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی۔  اس کے بعد دو تین دن بعد جب آپ نے اپنی ساس کو فون پر کہا "میں نے آپ کی بیٹی کو طلاق دیدی" تو اس سے دوسری طلاقِ بائن واقع ہوگئی۔ اس کے بعد "میری طرف سے فارغ ہے، آپ اپنا انتظام کرلو" الفاظ سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی؛ لأن البائن الکنائی لایلحق البائن الکنائی والبائن الصریح، کما فی إمداد الفتاویٰ: 2/ 427، و أحسن الفتاوی:5/135۔

حاصل یہ کہ صورتِ مسئولہ میں آپ کی اہلیہ پر دو بائن طلاقیں واقع ہوگئی ہیں، جس کے بعد آپ دونوں کا نکاح ختم ہوگیا ہے، اب رجوع نہیں ہوسکتا، البتہ آپ دونوں باہم رضامندی سے گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر پر دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔ دوبارہ نکاح ہونے کی صورت میں آپ کو صرف ایک طلاق کا اختیار ہوگا، نکاح کے بعد مزید ایک طلاق دینے کی صورت میں آپ دونوں کے درمیان حرمتِ مغلظہ ثابت ہوجائے گی، جس کے بعد تحلیل کے بغیر دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکے گا، اس لیے آئندہ طلاق کے معاملے میں انتہائی احتیاط لازم ہوگی۔   

حوالہ جات
رد المحتار (3/ 308-306):
قوله ( الصريح يلحق الصريح ) كما لو قال لها أنا طالق ثم قال أنت طالق أو طلقها على مال وقع الثاني، بحر.  فلا فرق في الصريح الثاني بين كون الواقع به رجعيا أو بائنا .  قوله ( ويلحق البائن ) كما لو قال لها أنت بائن أو خالعها على مال ثم قال أنت طالق أو هذه طالق،  بحر عن البزازية.  ثم قال: وإذا لحق الصريح البائن كان بائنا؛ لأن البينونة السابقة عليه تمنع الرجعة كما في الخلاصة.......… قوله ( لا يلحق البائن البائن ) المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ما كان بلفظ الكناية لأنه هو الذي ليس ظاهرا في إنشاء الطلاق كذا في الفتح.  وقيد بقوله "الذي لا يلحق" إشارة إلى أن البائن الموقع أولًا أعم من كونه بلفظ الكناية أو بلفظ الصريح المفيد للبينونة كالطلاق على مال، وحينئذ فيكون المراد بالصريح في الجملة الثانية أعني قولهم "والبائن يلحق الصريح لا البائن" هو الصريح الرجعي فقط دون الصريح البائن……….…قوله ( إذا أمكن الخ ) قيد في عدم لحاق البائن البائن ومحترزه ما أفاده بقوله بخلاف أبنتك بأخرى الخ ط.
 قال في البحر: وينبغي أنه إذا أبانها ثم قال لها أنت بائن ناويا طلقة ثانية أو تقع للثانية بنيته لأنه ينبته لا يصلح خبرا فهو كما لو قال أبنتك بأخرى إلا أن يقال إن الوقوع إنما هو بلفظ صالح له وهو أخرى بخلاف مجرد النية اه. وفيه أن اللفظ الثاني صالح ولو أبدل صالح بمعين له لكن أظهر ط.
 أقول: ويدفع البحث من أصله تعبيرهم بالإمكان, وبأنه لا حاجة إلى جعله إنشاءً متى أمكن جعله خبرا عن الأول؛ لأنه صادق بقوله أنت بائن على أن البائن لا يقع إلا بالنية، فقولهم البائن لا يلحق البائن لا شك أن المراد به البائن المنوي إذ غير المنوي لا يقع به شيء أصلا ولم يشترطوا أن ينوي به الطلاق الأول، فعلم أن قولهم "إذا أمكن الخ" احتراز عما إذا لم يمكن جعله خبرا كما في أبنتك بأخرى لا عما إذا نوى به طلاقا.
 الفتاوى الهندية (1/ 472):
 إذا كان الطلاق بائنًا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدةوبعد انقضائها.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

20/جمادی الاولی /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب