021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد کے حکم پر والدہ سے قطع تعلقی کا حکم
75041جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم، کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس صورت مسئولہ کی بابت کی میرے والدین  کے  مابین  عرصہ  بیس ، بائیس  برس  گھریلو  ناچاقی کے سبب علیحدگی  ہو گئی تھی ، علیحدگی سے قبل میرے والد دوسرا نکاح کر چکے تھے  تا ہم باقاعدہ علیحدگی کے بعد  میرے والد نے ہم آٹھ  بہن بھائیوں کو  اپنی تحویل میں لیا۔ میری دو بہنوں کی شادیاں  اس دوران  انجام  پائیں  جن میں میری والدہ کو شریک نہیں ہونے دیا گیا تھا ، باوجود اس کے کہ ابھی علیحدگی نہیں ہو ئی تھی۔

علیحدگی کے بعد   جب میرے والد نے ہمیں تحویل میں لیا تو ہمیں آبائی گاوں سے اپنے ساتھ  اپنی دوسری بیوی یعنی ہماری سوتیلی والدہ کے گھر لے گئے، جو والد صاحب کا دوسرا گھر تھا  جو پشاور میں واقع تھا، والد صاحب نے ہمیں مکمل طور پر آبائی گاوں سے کاٹ کر  رکھ دیا اور بعد ازاں کراچی لے آئے تا کہ ہماری حقیقی والدہ کی ہم بہن بھائیوں تک قطعی رسائی  نہ ہو، میں تمام بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہوں اور جب مجھے ماں سے الگ کیا گیا تو میں بمشکل  پانچ سال کا تھا۔

 میرے والد صاحب میری والدہ صاحبہ سے شدید پرخاش رکھتے ہیں، ہم گیارہ سال کراچی رہے اس دوران والدہ صاحبہ کی صورت نہیں  دیکھی ، علیحدگی کے بعد والدہ نے بھی شرعی حدود  کے عین مطابق دوسرا نکاح کر لیا تھا اور آج وہ بھی اپنے گھر  میں آباد ہیں، تا  ہم میرے والد اب بھی رنج دل میں لیے بیٹھے ہیں۔

میرے والد نے ہمارے بچپن میں ہمیں والدہ سے بزور دور رکھا اور اب ہم بہن بھائی خود بھی شادی شدہ اور بال بچوں والے ہیں تو ا ب  اپنے  اختیار سے اپنی والدہ سے میل جول رکھتے ہیں تا ہم میرے والد اس بات سے ناخوش ہیں، ان کا کہنا ہے کہ  میں نے آپ لوگوں کو پالا پوسا ہے، آپ والدہ سے تعلق نہ رکھیں، وہ میرے تمام بہن بھائیوں سے اس بات پر ناراض ہیں کہ ہم والدہ سے میل جول اور معاشرۃ کیوں رکھتے ہیں، ان کی نظر میں والدہ ایک مجرمہ ہیں تو وہ ہمیں بھی مجبور کرتے ہیں ہم ان سے نفرت کریں، اولا د ہونے کی حیثیت سے کم از کم میرے لیے یہ ممکن نہیں اور میں اس بڑھاپے میں اپنی والدہ سے منہ نہیں پھیر سکتا ۔

مفتیان کرام  براہ کرم  میرے والد صاحب کے اس طرز عمل[ یعنی ہمیں  والدہ سے دور رہنے کی بزور تلقین کرنا اور  یہ بات نہ ماننے پر ہمیں  ہر چیز سے بے دخل  کر دینا] کی شریعت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ آیا وہ درست ہیں؟ کیا ہم اس معاملے میں والد کی نافر مانی کر کے گناہ گار ہو رہے ہیں؟ کیا مجھے والدہ سے قطع تعلق کرنا چاہیے یا میرے والد کی یہ بات غلط ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اسلام نے والدین  کے حقوق کی بہت زیادہ رعایت رکھی ہے اور والدین کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلے میں بڑی تاکید  کے ساتھ احکامات بیا ن فرمائے ہیں۔ یقینا خالق ذوالجلال  کے بعد  انسان پر سب سے زیادہ  حق والدین ہی کا ہے،اور حقوق العباد میں بھی  سب سے مقدم حق والدین  کا ہے،  نیز والدین کے حقوق اتنے اہم ہیں  کہ اللہ تعالی نے اپنے حق عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر جس حق کو ذکرکیا  وہ والدین کا حق ہے۔

 والدین کے حقو ق میں  ا ن سے حسن سلوک، ان کا مکمل ادب و احترام ، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ان کی اطاعت و فرمانبرداری اور ہمیشہ ان کے سامنے سر تسلیم خم کرنا شامل ہے۔ یہ تو والدین کے عمومی حقوق کی بات ہے،  والدہ کے حقوق کی  اگر الگ سے بات کی جائے تو  والدہ تو  انسان کے حسن سلوک کی والد سے  بھی زیادہ مستحق ہے۔ لہذا والدین اور بالخصوص والدہ  کے حقوق کی رعایت رکھنا  از حد ضروری ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک میں کوتاہی سے کام لینا  بدقسمتی کی بات ہے۔

 والدین  کی فرمانبرداری کے متعلق بڑی  سخت تاکیدیں آنے کے باوجود   شر یعت نے  والدین کی ہر جائز و ناجائز با ت ماننے کا حکم نہیں دیا بلکہ والدین  کی فرمانبرداری کی بھی حدودمتعین کی ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ   اگر وہ کسی جائز بات کا حکم کریں  تو اس کی تکمیل ضروری ہے بشرطیکہ  آدمی اس کی طاقت بھی رکھتا ہو  اور اس سے دوسروں کے حقوق بھی تلف نہ ہوتے ہوں، لہذا والدین کی کسی ناجائز    یا ایسی بات کو  ماننا جس سے دوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے اولاد پر ضروری نہیں بلکہ ا س طرح کی بات ماننے کی صورت میں اولا د گناہگار ہو گی، اسی طرح ایسی بات جس کی انسان طاقت نہ رکھتا ہو  اس کی تعمیل بھی اولاد پر ضروری نہیں۔

صور ت  مسئولہ میں والد کی طرف سے اولاد  کو  والدہ سے  قطع تعلقی  کا حکم دینا اور  عدم تعمیل کی صورت میں ان  کو ہرچیز سے بے دخل کرنے کی دھمکی دینا شرعا ناجائز ہے ، اور اولاد پر والد کے اس حکم کی فرمانبرداری ضروری نہیں ، بلکہ اس حکم کو نہ مانتے ہوئے والدہ کے ساتھ معاشرت  اور حسن سلوک  کو قائم رکھنا ضروری ہے، نیز والد کے اس حکم کو نہ ماننے  کی وجہ سے اولاد پر کسی قسم کا کوئی گناہ  نہ ہو گا، بلکہ اگر  والد کی اس بات  کو  مان کر والدہ سے قطع تعلقی کر  لی تو  اس صورت میں اولاد والدہ کی حق تلفی کی وجہ سے گناہگار ہو گی۔

حوالہ جات
[العنكبوت: 8]
{وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا وَإِنْ جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ } .
[لقمان: 14، 15]
{ وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ (14) وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ} .
[الإسراء: 23، 24]
{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا (23) وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا }.
 الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 125)
وذكر «عن ابن عباس بن مرداس أنه قال يا رسول الله إني أريد الجهاد قال ألك أم؟ قال: نعم قال الزم أمك» إلخ (قوله تحت رجل أمك) هو في معنى حديث «الجنة تحت أقدام الأمهات».
مسند الشهاب القضاعي (1/ 102)
 أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَسَنُ بْنُ خَلَفٍ الْوَاسِطِيُّ، ثنا عُمَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ شَاهِينَ، ثنا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ الْمُهْتَدِي بِاللَّهِ بْنِ الْوَاثِقِ بِاللَّهِ، ثنا عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْوَاسِطِيُّ، ثنا مَنْصُورُ بْنُ الْمُهَاجِرِ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ الْأَبَّارُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الْأُمَّهَاتِ».
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 589)
فِي الْحَدِيثِ: ( «الْجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الْأُمَّهَاتِ» ) أَيْ: بِرُّهَا وَصِلَتُهَا، وَالتَّحَمُّلُ عَنْهَا يُوَصِّلُ إِلَى دَارِ اللَّذَّاتِ.

سعد مجیب

دارلافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۲ جمادی الاولی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب