021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرض خواہ کا مقروض کی دکان پر کام کرنا
75072اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ،

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے آج سے دس سال پہلے اپنے چھوٹے بھائی کو 15ہزار تنخوا پر اپنی دکان پر ملازم رکھا تاکہ وہ دکان کا حساب کتاب اور دیگر انتظامی معاملات دیکھے ۔اور میں دکان سے بلکل لاتعلق ہوگیا اور صرف دکان سے ہونے والا نفع وصول کرتا رہا۔ اس دوران میرے   معاشی حالات بلکل خراب ہوگئے تو میں نے  اسی چھوٹے بھائی سے 20لاکھ روپے قرضہ لے لیا ۔

گذشتہ سال چھوٹے بھائی نے اپنے پیسوں کا مطالبہ کیا لیکن میرے پاس قرض اتارنے کے پیسے نہیں تھے  تو بھائی نے یہ طے کیا کہ جب تک میرا قرضہ اتر نہیں جاتا میں اپنی دکان سے کوئی نفع  نہیں لوں گا بلکہ نفع چھوٹا  بھائی اپنے قرض کی مد میں وصول کرتا رہے گا اور اس  کا حساب رکھے گااور میں  دکان کے انتظامی معاملات میں بھی دخل اندازی نہیں کروں گا۔

گذشتہ مہینے میری ہی دکان پر میرے چھوٹے بھائی نے مجھے  ملازم رکھ لیا ہے۔ لہذا میرا کہنا ہے کہ میں دکان پر آگیا ہوں تو حساب کتاب رکھنے کے لیے آپ کی ضرورت نہیں اب آپ جو تنخواہ لے رہے تھے اب نہیں لیں گے تاکہ میرا قرضہ جلد اتر جائے بلکہ جو نگرانی کرنی ہے وہ فری میں کرلیں یا مجھ پر اعتماد  کریں۔ جبکہ چھوٹے بھائی کا کہنا ہے کہ  اس وقت دکان پر تقریباً 10لاکھ کا مال میرے چہرے پر ادھار ڈالا ہوا ہے اور آپ کو اگر دکان حوالے کی جائے تو سابقہ تجربہ یہ کہتا ہے کہ  آپ ایک سال تک اپنے ہی خرچے بڑھا کر نہ میرا قرض ادا کریں گے اور نہ مارکیٹ کا وہ قرض جو میرے نام پر ہے لہذا میں جب تک یہ قرض ختم نہیں کر دیتا میں دکان کے معاملات اپنے ہاتھ میں ہی رکھوں گا اور جو  میری  تنخواہ بنتی ہے وہ بھی میں  لوں گا اور  مجھے آپ کے قرض ادا کرنے پر اعتماد نہیں۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ میرے بھائی کا یہ تنخواہ لیناسود کے زمرے میں تو نہیں آتا جبکہ میرے خیال میں اس کو مجھ پر اعتماد کرنا چاہیے اور اس کی ضرورت نہیں میرے ہوتے ہوئےجبکہ وہ فری میں کام کرنے پر تیار بھی نہیں ہے۔         

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں چھوٹے بھائی کا  بڑے بھائی کی دکان  میں  کام وغیرہ کی نگرانی  اور ملازمت  کرنا اور پھر اس پر اجرت اور تنخواہ وصول کرنا جائز اور درست ہے، اور یہ تنخواہ  سود کے زمرے میں نہیں آتی ، کیونکہ   یہ  ملازمت قرض دینے کے بعد  قرض  کی بنیاد  پر( شرطا یا بلا شرط) حاصل نہیں کی گئی اور نہ ہی  اس  ملازمت کے جاری رکھنے کی وجہ قرض کی فراہمی ہے، بلکہ  یہ ملازمت  دیگر  وجوہات  کی بناء پر جاری رکھی جا رہی ہے  ،مثلا  چھوٹے بھائی نے    کاروبار  اور دکان کے لیے  مارکیٹ   سے  جو قرض یا ادھار لے رکھا ہے  اس کی ادائیگی کو یقینی بنانا  تا کہ مارکیٹ میں چھوٹے بھائی کی ساکھ خراب نہ ہو،  اور دکان مکمل طور پر  چھوڑ کر بڑے  بھائی کے سپر د کر دینے سے  اپنے اور مارکیٹ کے قرضہ کی عدم ادائیگی کا خدشہ ہو نا  وغیر ہ ۔لہذا چھوٹے بھائی کی اس تنخواہ کو سود نہیں کہا جا سکتا۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 166)
(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر.

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۱ جمادی الاولی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب