021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
علاج کے سائیڈافیکٹ کا حکم
75052قصاص اور دیت کے احکاممتفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک عورت ،جس کے سینے میں تیس سال سے الرجی ہے ،جس کی وجہ سے مختلف ڈاکٹروں کے پاس لے جاکر دوائی دلواتے تھے اور ڈاکٹر  ان کو گھر میں انجکشن  لگوانے کے لیے دیتے تھے ، گھر میں ان کو وہ انجکشن  میں لگا تا تھا ، میری تعلیم M.A ہے ،باضابطہ کسی ڈاکٹر سے ڈاکٹری کا کورس نہیں کیا ہے ، البتہ انجکشن لگا نے اور اس طرح کے کچھ  فارمولے ایک سرکاری اجازت یافتہ ڈاکٹر سے سیکھے تھے ،اور دوائی  کے فارمولے اور دوائی کی ایکسپائری  وغیرہ سے بھی واقفیت رکھتا ہوں ،مندرجہ بالا وضاحت کے بعد اب یہ معلوم کرنا تھا، کہ مذکورہ بیمار خاتون کو معمول کے مطابق سینے کی الرجی کی تکلیف شروع ہوئی ، میں نے ایکسپائری ڈیٹ وغیرہ دیکھ کر اس خاتون کو انجکشن لگایا ، جس کی وجہ سے آدھے گھنٹے کے بعد ان کو اْلٹی اور سینے میں درد شروع ہو گیا ، اس سے پہلے بھی دو مرتبہ  جب میں نے  یہ انجکشن ان کو لگایا  تھا تو ان کو درد شروع ہو گیا تھا  تو ہم انہیں ایک قریبی ڈاکٹر  کے پاس  لے گئے تو اس ڈاکٹر نے ایک مخصوص ڈرپ اسے لگائی جس سے  وہ عورت ٹھیک ہو گئی  ،اس مرتبہ جب  اس کو درد ہوا تو ہم اس خاتون کو   اسی  ڈاکٹر کے کلینک میں لے آئے لیکن وہ ڈاکٹر اس وقت وہاں نہیں تھا ،اور دوسرے ڈاکٹروں کو  اس خاص ڈرپ کا پتہ نہیں  تھا ،تو دوسرے ڈاکٹر نے اس عورت کو کوئی اور انجکشن اور ڈرپ لگائے لیکن وہ عورت بچ نہ سکی۔ اب پوچھنا یہ  تھا کہ خدا نخواستہ اس عورت کی موت کا سبب میرا انجکشن ہو تو مجھ پر کوئی دنیاوی یا اخروی مؤاخذہ ہوگا یا نہیں ؟ اور اگر ہو تو اس سے خلاصی کی کیا صورت ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ نے جو انجکشن لگایا وہ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ہی لگایا اور ڈاکٹر نے   یہ علاج اپنے علم وتجربہ کے مطابق  مریض کے لیے  مناسب  سمجھا  ،لیکن چونکہ آ پ کے پاس ڈاکٹری یا کمپوڈری کی سند نہیں، نیز انجکشن لگنے پر ممکنہ نتائج کو سنبھالنے کے لحاظ سے آپ کی تربیت بھی نہیں، لہذا  نقصان ہونے کی صورت میں آپ  پر ضمان آئے گا ،صورتِ مسئولہ میں چونکہ اس خاتون کی وفات ہو گئی ہے ، لہذا یہ قتلِ خطاء  ہے ، اس صورت میں  پوری دیت اور  کفارہ قتل(یعنی دو مہینے لگاتار روزے رکھنا)  لازم ہوگا،دیت کی ادائیگی آپ کے عاقلہ پر ہوگی اور اگر مرحومہ  خاتون کے وارث چاہیں تو  دیت معاف بھی  کرسکتے ہیں۔ 

حوالہ جات
احسن الفتاوی میں ہے : طبیب جاہل کا حکم:
اس کے لیے علاج کرنا جائز نہیں اور بہر صورت پورا ضمان واجب ہوگا ،خواہ اصول طبیہ کے مطابق علاج کرے یا ان کے خلاف ،مریض یا اس کے ولی کی اجازت سے علاج کرے یا بلا اجازت۔( احسن الفتاوی:8/518)
 وَمَا كَانَ لِمُؤۡمِنٍ أَن يَقۡتُلَ مُؤۡمِنًا إِلَّا خَطَـٔٗاۚ وَمَن قَتَلَ مُؤۡمِنًا خَطَـٔٗا فَتَحۡرِيرُ رَقَبَةٖ مُّؤۡمِنَةٖ وَدِيَةٞ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰٓ أَهۡلِهِۦٓ إِلَّآ أَن يَصَّدَّقُواْۚ فَإِن كَانَ مِن قَوۡمٍ عَدُوّٖ لَّكُمۡ وَهُوَ مُؤۡمِنٞ فَتَحۡرِيرُ رَقَبَةٖ مُّؤۡمِنَةٖۖ وَإِن كَانَ مِن قَوۡمِۭ بَيۡنَكُمۡ وَبَيۡنَهُم مِّيثَٰقٞ فَدِيَةٞ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰٓ أَهۡلِهِۦ وَتَحۡرِيرُ رَقَبَةٖ مُّؤۡمِنَةٖۖ فَمَن لَّمۡ يَجِدۡ فَصِيَامُ شَهۡرَيۡنِ مُتَتَابِعَيۡنِ تَوۡبَةٗ مِّنَ ٱللَّهِۗ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمٗا (سورۃ النساء:٩٢)
عن عمرو بن شعيب، عن أبيه،  عن جده، أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: "من ‌تطبب ولم يُعلَم منه طب فهو ضامن".(سنن أبي داؤد:6/643)
حدثني بعض الوفد الذين قدموا على أبي، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: "أيما طبيب ‌تطبب على قوم لا يعرف له ‌تطبب قبل ذلك فأعنت، فهو ضامن".(سنن أبي داؤد:6/644)
قال العلامۃ الحصکفي رحمۃ اللہ علیہ: (ولا ضمان على حجام وبزاغ) أي بيطار (وفصاد لم يجاوز الموضع المعتاد، فإن جاوز) المعتاد (ضمن الزيادة كلها إذا لم يهلك) المجني عليه (وإن هلك ضمن نصف دية النفس) لتلفها بمأذون فيه وغير مأذون فيه فيتنصف، ثم فرع عليه بقوله : فلو قطع الختان الحشفة وبرئ المقطوع تجب عليه دية كاملة) ؛ لأنه لما برئ كان عليه ضمان الحشفة وهي عضو كامل كاللسان (وإن مات فالواجب عليه نصفها) لحصول تلف النفس بفعلين أحدهما مأذون فيه وهو قطع الجلدة والآخر غير مأذون فيه وهو قطع الحشفة فيضمن النصف ولو شرط على الحجام ونحوه العمل على وجه لا يسري لا يصح؛ لأنه ليس في وسعه إلا إذا فعل غير المعتاد فيضمن عمادية.وفيها سئل صاحب المحيط عن فصاد قال له غلام أو عبد: أفصدني ففصد فصدا معتادا فمات بسببه.قال: تجب دية الحر وقيمة العبد على عاقلة الفصاد؛ لأنه خطأ.
وعلق علیہ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ:  ويستفاد بمجموع الروايتين اشتراط عدم التجاوز والإذن لعدم الضمان، حتى إذا عدم أحدهما أو كلاهما يجب الضمان انتهى طوري وعليه ما يأتي عن العمادية. (قوله فلو قطع الختان الحشفة) أي كلها: قال في الشرنبلالية: وبقطع بعضها يجب حكومة عدل كما ذكره الأتقاني. (قوله دية كاملة) قال الزيلعي: هذا من أعجب المسائل حيث وجب الأكثر بالبرء والأقل بالهلاك. (قوله تجب دية الحر) أي لو كان الغلام حرا وقيمة العبد لو كان عبدا، قال ح؛ لأن فعله غير مأذون فيه حيث لم يعتبر إذنهما للحجر عليهما في الأقوال. (قوله؛ لأنه خطأ) أي من القتل خطأ إذ لم يتعمد قتله. (ردالمحتار :6/69)
(قوله أو دية) أي إن كان شبه عمد أو ‌خطأ أو جرى مجرى الخطأ، والدية على العاقلة وعلى القاتل ‌الكفارة. (ردالمحتار:1/236)
قال العلامۃ الحصکفي رحمۃ اللہ علیہ:يمنع (‌مفت ماجن) يعلم الحيل الباطلة كتعليم الردة لتبين من زوجها أو لتسقط عنها الزكاة (وطبيب جاهل).
وعلق علیہ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ:  قوله: (وطبيب جاهل) بأن يسقيهم دواء مهلكا وإذا قوي عليهم لا يقدر على إزالة ضرره زيلعي. (ردالمحتار:6/147)

محمد طلحہ شیخوپوری

دار الافتاء ،جامعۃ الرشید،کراچی

 25جمادی الاولی /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طلحہ بن محمد اسلم شیخوپوری

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب