021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خود رو گھا س بیچنے کا حکم
75262شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

ہمارے ہاں  ملکیتی زمین میں خود بخود اگنے والی گھاس  بسا اوقات کسی کو اجرت پر لے کر اس کے ذریعے کاٹی جاتی ہے،اجارہ کا یہ معاملہ عمل پر ہوتا ہے کہ  اس خاص جگہ کی گھا س کاٹنی ہے چاہے  ایک دن میں کاٹو یا ایک ہفتہ میں کاٹو، اور بطور اجرت  یا تو اسے پیسے دے دیے جاتے ہیں،یا پھر مزدور کی طرف سے کاٹی جانے والے گھاس سے ہی  ایک  متعین حصہ اس کے لیے مقرر کر دیا جاتا ہے ،پھر اس گھا س کو یا تو خود اپنے جانوروں کےلیے استعمال کیا جاتا ہے یا کسی اور کو بیچ دیا جاتا ہے۔

اور کبھی کبھار اس طرح کی گھا س کو کاٹنے سے پہلے ہی  بیچ دیا جاتا ہے۔ان صورتوں کا  شرعی حکم واضح فرما دیں۔

وضاحت از مستفتی: اس طرح خود بخود اگنے والی گھاس میں بسا اوقات مالک زمین کی محنت شامل ہوتی ہے اور بسا اوقات نہیں بھی ہوتی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بطور تمہید سمجھ لیجیے کہ:

  1. ملکیتی زمین میں جو گھاس خود بخود اگ جائے اور اسے اگانے میں مالک زمین کی  کسی طرح کی محنت  یا سبب  بننے کا عمل دخل نہ ہو تو یہ گھاس  مباح الاصل ہے، البتہ اگراس گھاس کو اگانے یا اس کی حفاظت  میں مالک زمین کی کسی نا کسی طرح  کی محنت شامل ہوتی ہے "  مثلا :   مالک زمین اس گھاس کو پانی وغیرہ دیتا ہے، یا اس گھاس کی حفاظت کے لیے زمین کے اطراف میں  باڑ لگاتاہے، یا گھاس کی حفاظت کےلیے اپنی زمین سے جھاڑیا ں وغیرہ کاٹتاہے  یا دیگر کسی طریقے سے  زمین کی صفائی ستھرائی کرتا ہے، یا جانوروں  سے اس گھاس   کی حفاظت کرتا  ہے" تو یہ گھاس مباح نہیں ہو گی بلکہ مالک زمین کی مملوک ہو گی ۔
  2. مباح الاصل گھاس کسی کی شخصی ملکیت نہیں ہوتی بلکہ  سب لوگوں کے لیے حلال اور مباح ہو تی ہے اور سب   لوگوں کو اس گھاس سے ایسے طریقے سے نفع اٹھانے کی اجازت ہوتی ہے جس سے دوسرے عام لوگوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے،البتہ اگر کوئی شخص  مباح گھاس کو کاٹ کر  قبضہ اور احراز  کے ذریعے اپنے لیے محفوظ کر لے تو اس صور ت میں یہ اس کی شخصی ملکیت بن جائیگی۔
  3. کرایہ داری کا معاملہ صحیح ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ  مزدور کی مزدوری اسی کے عمل سے وجود میں آنے والی چیز میں سے مقرر نہ کی جائے، لہذا اگر مزدور کی مزدوری اسی کے عمل سے وجود میں آنے والی چیز میں سے مقرر کر لی جائے تو کرایہ داری کا معاملہ فاسد ہو جاتا ہے  ۔
  4. کرایہ داری کا معاملہ فاسد ہونے کی صورت میں شرعی حکم یہ ہے کہ اس صورت میں مزدور کو اس کی طے شدہ اجرت کے بجائے اس کے کام کی متعارف مزدوری کے بقدر مزدوری دی جائیگی۔
  5. کسی چیز کو بیچنے کے لیے  اس چیز کا بیچنے والے کی شخصی ملکیت میں ہونا ضروری ہے، غیر مملوک اور مباح چیزوں کو بیچنا  ناجائز اور باطل ہے۔

تمہید کے بعد اب گھاس کو کاٹنے کےلیے کسی کو کرایہ پر رکھنے یا گھاس کی خریدو فروخت سے متعلق احکام درج ذیل ہیں:

  • ملکیتی زمین کی مملوکہ گھاس کاٹنے کے لیےکرایہ  داری کا معاملہ کرنا مطلقا جائز ہے، چاہے   کرایہ داری کا معاملہ وقت پر ہو یا گھاس  کاٹنے  کے عمل پر، البتہ مملوکہ زمین کی  مباح گھاس کاٹنےکے لیے  کرایہ داری کےمعاملے  کے جواز و عدم جوازمیں یہ تفصیل ہے کہ  اگر کرایہ داری کا معاملہ  گھاس کاٹنے کے عمل پر ہو ا ہے تو یہ ناجائز ہے اور اس کی وجہ سے کرایہ داری کا معاملہ فاسد ہو جائیگا اور اگر کرایہ داری کا معاملہ وقت پر ہوا  ہے تو یہ  جائز ہے  بشرطیکہ  مزدوری اسی گھاس  میں سے مقرر نہ کی  جائے جسے مزدور کاٹے گا، وگرنہ کرایہ داری کا یہ معاملہ بھی ناجائز اور فاسد ہو جائیگا،   کرایہ داری کا معاملہ فاسد ہونے کی صورت میں مزدور کو  طے شدہ مزدوری کے بجائے   اس کے کام کی متعارف مزدوری کے بقدر مزدور ی دی جائے گی اور گھاس ساری کرایہ پر رکھنے والے  کی ہو گی۔
  • ملکیتی زمین کی مملوکہ گھاس کو  بیچنا مطلقا جائز ہے، چاہے کاٹنے سے پہلے بیچا جائے یا بعد میں ، البتہ ملکیتی زمین کی مباح گھاس کو  کاٹ کر محفوظ کر لینے سے پہلے   بیچنا ناجائز اور باطل ہے اور  خریدو فروخت کے اس معاملے سے گھاس پر خریدار کی اور قیمت پر بیچنے والے کی ملکیت  ثابت نہیں ہو گی، تا ہم  اس طرح کی مباح گھاس کو کاٹ کر محفوظ کر لینے کے بعد بیچنا جائز ہے۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية (4/ 451)
استأجره ليقطع له اليوم حاجا ففعل لا شيء عليه والحاج للمأمور قال نصير سألت أبا سليمان عمن استأجره ليحتطب له إلى الليل قال إن سمى يوما جاز والحطب للمستأجر ولو قال هذا الحطب فالإجارة فاسدة والحطب للمستأجر وعليه أجر مثله ولو كان الحطب الذي عينه ملك المستأجر جاز. قال نصير: قلت: فإن استعان بإنسان يحتطب له ويصطاد له قال الحطب والصيد للعامل وكذا ضربة القانص. قال أستاذنا: وينبغي أن يحفظ هذا فقد ابتلي به العامة والخاصة يستعينون بالناس في الاحتطاب والاحتشاش وقطع الشوك والحاج واتخاذ المجمدة فيثبت الملك للأعوان فيها ولا يعلم الكل بها فينفقونها قبل الاستيهاب بطريقه أو الإذن فيجب عليهم مثلها أو قيمتها وهم لا يشعرون لجهلهم وغفلتهم أعاذنا الله تعالى عن الجهل ووفقنا للعلم والعمل. كذا في القنية.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 254)
(كما أن الكلأ النابت في الأراضي التي لا صاحب لها مباح كذلك الكلأ النابت في ملك شخص بدون تسببه مباح أيضا. أما إذا تسبب ذلك الشخص في هذا الخصوص بأن أعد أرضه وهيأها بوجه ما لأجل الإنبات كسقيه أرضه أو إحاطتها بخندق من أطرافها فالنباتات الحاصلة في تلك الأرض تكون ماله فلا يسوغ لآخر أن يأخذ منها شيئا فإذا أخذ شيئا واستهلكه يكون ضامنا) . .......وبيع هذا الكلأ قبل إحرازه باطل.

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

یکم جمادی الثانی۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب