021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فقہاء کے غیر مفتی بہ (مرجوح)قول پر عمل کر نے کا حکم
75214جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

کسی نے فقہ حنفی میں  غیر مفتی بہ قول پر عمل کیا  تو جائز ہے کہ نہیں؟ مثلاً  نماز استسقاء بغیر جماعت اور خطبہ کے ادا کی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب کسی مسئلہ میں مفتی بہ قول کے مقابلہ میں کسی فقیہ کا مرجوح قول ہو تو اس صورت میں مرجوح قول پر عمل کرنا اور فتویٰ دینا دونوں درست نہیں ہیں ، کیوں کہ مرجوح  بمنزلہ منسوخ  ہوتا ہے، اور منسوخ پر عمل کرنا درست نہیں ہے۔  البتہ شدید ضرورت اور حاجت کے موقع پر مستند علماء و مفتیان کرم اگر مرجوح پر عمل  کرنے کی اجازت دیں تو پھر جائز ہے۔

حوالہ جات
شرح عقود رسم المفتي ، ط : مكتبة البشري-كراتشي (۸):
أي أن الواجب على من أراد أن يعمل لنفسه أو يفتي غيره، أن يتبع القول الذي رجحه علماء مذهبه، فلا يجوز له العمل أو الإفتاء بالمرجوح إلا في بعض المواضع۔
وقد نقلوا الإجماع على ذلك۔ ففي الفتاوى الكبرى للمحقق ابن حجر المكي: "قال في "زوائد الروضة": إنه لا يجوز للمفتي والعامل أن يفتي أو يعمل بما شاء من القولين أو الوجهين من غير نظر۔ وهذا لا خلاف فيه"۔ وسبقه إلى حكاية الإجماع فيهما ابن الصلاح، والباجي من المالكية في المفتي، وكلام القرافي دال على أن المجتهد والمقلد لا يحل لهما الحكم والإفتاء بغير الراجح؛ لأنه اتباع للهوى، وهو حرام إجماعا، وأن محله في المجتهد ما لم تتعارض الأدلة عنده، ويعجز عن الترجيح، وأن لمقلده حينئذ الحكم بأحد القولين إجماعا۔

محمد انس جمیل

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

٢، جمادی الثانی ۱۴۴۳ ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد انس ولدمحمد جمیل

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب