021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
رضامندی کے بغیر کیے گئے صلح کے فیصلے کا حکم
75301اقرار اور صلح کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

بیان فریق دوم۔۔۔۔۔ یوسف

2016میں  میں  گاڑی لینا چاہتا تھا، تو میں خود گاڑی کے بارے میں نہیں جانتا تھا، میرا دوست تاج اور پڑوسی گاڑیوں کا کاروبار کرتاہے تو میں اس کے پاس گیا تا کہ وہ میرے لیےایک گاڑی خریدے، تو اس نے میرے کو فریم گاڑی کا خریدا اور ا س نے میرا ساتھ نبھانے میں  ساتھ دیا کیونکہ مارکیٹ میں اس کی جا  ن پہچان تھی، اس نے میرے ساتھ بہت بڑی قربانی کی، جب گاڑی تیار ہوئی تو مارکیٹ کے حساب سے 8 سے 10 لاکھ کا فائدہ ہوا۔

پھر میں 20-03-2018 کو  دوست تاج کے پاس گیا کہ میں دوسری گاڑی لینا چاہتا ہوں، ان نے کہا کہ شوروم والے کو فون کرتا ہوں، فون کیا تو اس نے بتا یا کہ گاڑی کھڑی ہے، جا کر چیک کرو، دوست نے میرے ساتھ پارٹنر بھیجا، گاڑی چیک کر لی، تو مجھے پسند آئی کیونکہ میری رقم کی رینج میں تھی،دوست تاج کے پارٹنر  کے کہا کہ اس میں نقض ہے، میں نے کہا کہ میں نہیں جانتا ، میں آپ لوگوں کے پاس آیا ہوں، جو آپ لوگ پسند کرو گے میں لے لوں گا، راستے میں دوست تاج کے پارٹنر نے کہا کہ میرے سالے کے پاس  گاڑی ہے وہ دے دوں گا، یہ گاڑی ایف وائے [FY]ہے، یہ گاڑی کسی کو بیچی تھی  واپس ہو گئ ہے، اس سے ہم نے اپنا منافع لیا ہے، اور یہ مارکیٹ سے  8سے 10 لاکھ سستی  دے دوں گا، میں نے اپنے دوست تاج کو بتایا تو اس نے بھی یہی بات کہی کہ یہ گاڑی دو ، تین مہینے چلی ہے اور ایک جگہ سے واپس بھی ہوئی ہے اس لیے یہ گاڑی صحیح ہے، میں نے اور دوست تاج نے  ایف وائے[FY]  گاڑی کے بارے میں حساب لگایا کہ فریم 50 لاکھ سے لیکر 55 لاکھ تک ہے،بنانے کے اوپر 22سے 24 لاکھ روپے لگتے ہیں اگر یہ گاڑی تیار ہوئی تو  یہ ایک کروڑ  دس  لاکھ سے ایک کروڑ بارہ  لاکھ تک ہو گی قسطوں پر، ہماری گاڑی میں آپ کو ایک کروڑ تین لاکھ پر دوں گا۔

65لاکھ ایڈوانس ہو گا  باقی ایک لاکھ پر قسط ادا کرنا ہو گا، میں نے دوست کے پارٹنر والی گاڑی لی ، گاڑی کو بک بھی دیا چلانے کے لیے، جب میں نے اس کو ویریفکیشن   کےلیے بولا تو دوست تاج نے بتایا کہ   یہ گاڑی کی ویریفکیشن میں نے خود کی ہے، میری ذمہ داری ہے، رقم دینے کے بعد میں نے ایگریمنٹ کا بولا توا س نے کہا کہ واٹر پمپ سے  کمپیوٹر پر ایگریمنٹ تیار کر کے دیتا ہوں،نہیں دیا،دوبارہ پوچھا، پھر یہی بہانہ بنایا، میرا بھروسہ تھا کہ دوست نے ذمہ داری اٹھائی ہے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، قسط ادا کرتا رہا، ایڈوانس بھی دے دیا، سال کے بعد پارٹنر کے سالے کا میرے اوپر قرض تھا، اس نے بتایا کہ میں گاوں میں ہوں، میری رقم دوست تاج اور اس کے پارٹنر ایوب کو دے دو، میں نےایک لاکھ کا چیک  تاج کے ہاتھ  پر دیا اس نے ایوب کےحوالے کیا،  اس نے مارکیٹ میں کسی کو دینے کےلیے بولا،دو ماہ بعد جب ایوب کا سالہ گاوں سے آیا تو اس  نے رقم کا بولا، میں نے اس کو بتایا کہ میں آپ کی رقم  تاج اور ایوب کو دے چکا ہوں، آپ ان سےلے لیں، ہفتے بعد  اس نے بولا کہ   وہ لوگ چیک نہیں مان رہے، میں گیا، تاج کو سمجھایا، اس نےکہا کہ چیک دیاہے  میرےکو پتہ نہیں چل رہا کہ کس کو دیا ہے، آپ ایسا کریں کہ ریکارڈ دیکھ لیں، میں نے بتایا کہ کیش چیک تھا کیسے پتہ چلےگا، آخر کار کوشش کی مگر پتہ نہ چل سکا، میں نے بتایا کہ اگر چیک بونس ہوگا تو واپس آجائیگا ، اگر کیش ہوا ہو تو آپ کی رقم وصول ہے، مجھےشک ہوا ، میں نے  تاج سے مکمل کاغذا ت کی کاپی مانگی، اس نے بولا کہ دوسرے بندے کے پاس ہے، منگواتاہوں، ٹائم گزرتا گیا، لیکن آج تک کاغذات نہیں ملے، آخر کار مجبور ہو کر میں نے محلے کے  دو آدمی بھیجے، اس نے محلے کے آدمیوں سے  کہاکہ جرگہ یہاں نہیں، مارکیٹ میں کریں گے، مارکیٹ کے جرگہ والے نے کوشش کی مگر فیصلہ نہ ہو سکا، آخر کار مسئلہ علماء کے پاس بھیجا اور ان کو بیان اور دعوی بتایا ، دوسرے فریق سے بھی بیان سنا، انہوں نے بتایا کہ د و طریقے ہیں ایک صلح اور دوسرا شریعت، میں نے صلح کا اختیار دیا کہ فیصلہ صلح پر کریں،بیان مولانا نے ن سناتھا، کہ26-03-2018 کو تاج نے میرے کو  ایف وائے  گاڑی دی تھی ، میں اب بھی  ایف وائے گاڑی مانگتا ہوں

 میں نے تاج کو  ایک لاکھ کا  چیک دیا تھا ، تاج چیک یا رقم واپس کرے،

فریق دوم کا دعوی اور بیان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تاج برکی

کہ میں نے ایس ایچ گاڑی دی ہے، بک کاغذات بھی ایس ایچ کا دی ہے۔

نوٹ :جو رقم ادا ہوئی ہے وہ ایف وائے کی  مارکیٹ کے حساب سے ادا ہوئی ہے ابھی گاڑی ایس ایچ نکلی ہے ،پہلے بھی ایس ایچ کی رقم اتنی نہیں تھی، اور اب بھی ایس ایچ کی نہیں بنتی۔

نوٹ:2018 میں ایف وائے کی مارکیٹ ویلیو 65 لاکھ  کیش او ر ٹوٹل ایک کروڑ دس سے بارہ لاکھ تھی۔

2018میں  ایس ایچ کی مارکیٹ ویلیو  40 لاکھ کیش اور ٹوٹل 80 لاکھ تھی۔

مسئلے والی گاڑی میں انجن ، گیر ، باقی سامان ایف وائے کا لگا ہوا ہے، اس لیے ہمیں پتہ نہ چل سکا، ابھی فریم  غیر چیک کرنے کے بعد پتہ چلا کہ کاغذات بک بھی ایس ایچ کے ہیں، یہ مارکیٹ کے لوگ بھی جانتےہیں، گاڑی اب بھی میرے پاس ہے، آج بھی ماکیٹ ایف وائے اور ایس ایچ میں فرق ہے، 2018  میں بھی تھا، میں نے قیمت  ایف وائے کی ادا کی ہے، ابھی گاڑی ایس ایچ کی نکلی ہے۔

وضاحت از مستفتی: ہم علماء کرام کے پاس گئے تھے تو انہوں نے عرض کیا کہ اس مسئلہ کے حل کے دو طریقے ہیں، ایک یہ کہ شرعی لحاظ سے ہر ایک کو اس کا حق دلایا جائے   اور دعوی و شہادت کے احکام وغیرہ کو مکمل لاگو کیا جائے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ  صلح کےذریعے اس معاملہ کو سر انجام دے دیا جائے، ہم نے انہیں صلح کا اختیار دیا کہ آپ صلح کے ذریعے ہمارے اختلاف کو ختم کر دیں، انہوں نے مجھ سے خالی کاغذ پر دستخط لے لیے اور ہمارے بیان سننے کے بعد صلح کے طور پر ایک فیصلہ لکھ دیا، میرے اصرار پر جب وہ فیصلہ مجھے دکھایا گیا تو  میں نے فورا اس کو ماننے سے انکار کیا کہ یہ کیسی صلح ہے؟  اس میں میری ہر بات کو نظر انداز کر کے یکطرفہ  فیصلہ کیا گیا ہے ، لہذا  میں صلح کے اس فیصلے کو بالکل نہیں مانتا اور میں نے اس فیصلہ کو کبھی قبول نہیں کیا۔

وضاحت: غلط گاڑی حوالہ کرنے  کی وجہ سے مجھے کافی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

پوچھنا یہ ہے کہ کیا مجھ پر اس فیصلہ کو ماننا شرعا ضروری ہے؟ کیا میری رضامندی کے بغیر کیا گیا صلح کا یہ فیصلہ شرعا مجھ پر لاگو ہو گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں دو باتوں میں اختلاف تھا،ایک تو گاڑی کے معاملہ میں کہ فریق دوم یعنی مسمی یوسف کے مطابق  اسے دھوکہ سے غلط گاڑی  حوالے کی گئی  جس کی وجہ سے اسے کافی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے اور مزید یہ کہ  اصرار کے باوجود  گاڑی کے مکمل کاغذات نہ مل سکے اور دوسرا اختلاف ایک لاکھ روپے کے ایک چیک کے حوالے سے تھا،مگر بنیادی اختلاف گاڑی سے متعلق ہی تھا ، اسی حوالے سے  صلح کےلیے کچھ حضرات  سے رابطہ کیا گیا اور پھر صلح کے نتیجے میں انہوں نے ایک فیصلہ لکھ کر تحریر  فریقین کے حوالےکر دی۔

صلح کے نام پر لکھی گئی تحریر میں فریق دوم یعنی یوسف کے دعوی کو شرعا و رواجا مسترد کردینا خلاف شریعت ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاقی لحاظ سے بھی ایک غیر مناسب حرکت ہے،  کہ بنیادی طور پر جس بات میں اختلاف پایاجا رہا تھا اس میں صلح کے ذریعے درمیانی صورت نکالنے کے بجائے  ایک ہی فریق کے حق میں فیصلہ کر کے دوسرے فریق کے دعوی کو سرے سے ہی مسترد کر دیا گیا ، "صلح  "فریقین کی رضامندی سے ان کے بیانات کو سن کر کسی ایک فیصلہ پر دونوں کی رضامندی سے اختلاف ختم کرنے کا نام ہے، اگر اختلاف بدستور باقی رہے، او ر کسی فیصلے پر  فریقین میں سےکوئی ایک بھی راضی نہ ہو تو ان کے درمیان کیے گئے  جبری اور یکطرفہ فیصلے کو "شرعی صلح" کا نام ہر گز نہیں دیا جا سکتا  ، لہذا درج ذیل وجوہات کی بناء  پر صلح کا یہ معاملہ فاسد ہے ، جسے فریقین  میں سے ہر ایک  کو فسخ کرنے اور نہ ماننے کا مکمل اختیار ہے:

  1. صلح کے اس فیصلہ پر فریق دوم راضی نہ تھا جس نے ابتداء ہی سے اس فیصلہ کو مسترد کیا ، لہذا فریقین کی رضامندی نہ پائے جانے کی وجہ سے یہ صلح درست نہیں۔
  2. صلح کے اس فیصلہ میں فریق دوم کے دعوی کو شرعا مردود  کہنا خود ایک خلاف شرع امر ہے، لہذا جس صلح کی بنیا د  ہی ایک خلاف شرع امر پر ہو  وہ  صلح غیر مقبول ہوتی ہے۔
  3. جس صلح میں ایک فریق ایک شخص کو اور دوسرا فریق  کسی دوسرے   شخص کو  صلح کا وکیل بنائے اور پھر وہ وکلاء  شرعی امور کا لحاظ کرتے ہوئے  صلح کے نتیجے میں کوئی فیصلہ کریں تو وہ فیصلہ لازم  شمار ہوتا ہے، جسے ماننا  فریقین میں سےہر ایک پر  واجب ہے، جبکہ مذکورہ صورت میں اس طرح علیحدہ علیحدہ کسی کو وکیل بنانے کا ذکر نہیں ہے۔
حوالہ جات
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (4/ 7)
وشرعا - هو عقد يرفع النزاع بالتراضي أي بتراضي الطرفين المتخاصمين ويزيل الخصومة ويقطعها بالتراضي؛ وركنه عبارة عن الإيجاب والقبول، وينعقد، ويصح بحصول الإيجاب من طرف والقبول من الطرف الآخر.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (4/ 703)
وهو أنه إذا وكل أحد الطرفين أحد المحكمين والآخر المحكم الآخر لإجراء الصلح في الخصوص الذي تنازعا فيه تصالح المحكمان بإضافة عقد الصلح إلى موكليهم وكان الصلح موافقا للأحكام المشروعة فليس لأحد الطرفين أن يمتنع عن قبول هذا الصلح والتسوية.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 183)
الخامس الصلح الفاسد لكل نقضه.
لسان الحكام (ص: 264)
الصلح الفاسد كالبيع الفاسد يتمكن كل منهما من الفسخ.
شرح السنة للبغوي (10/ 281)
وَالصُّلْحِ الْفَاسِدِ مُسْتَحِقُّ الرَّدِّ غَيْرُ مَمْلُوكٍ لِلآخَرِ.

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۶ جمادی الثانی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب