021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جانور کو نصف پر دینے کا حکم
75247شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

پارٹنرشپ کے بارے میں ایک خاص صورت کا حکم معلوم کرنا ہے وہ یہ کہ ہمارے علاقوں میں لوگ جانور خرید کر آگے کسانوں کے حوالے کرتے ہیں پھر کسان ان جانوروں کو پالتا ہے کھلاتا ہے اور بیچنے کے وقت مالک اپنا اصل اماؤنٹ( پرنسپل) اٹھاتا ہے اور نفع آپس میں برابر تقسیم کرتے ہیں۔

کیا اس طرح کی شراکت داری جائز ہے؟


             

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

احناف کے نزدیک یہ معاملہ شرعا صحیح نہیں ہے، کیونکہ یہ حقیقت میں اجارے کا معاملہ ہے جو اجرت اور مدت کی جہالت کی وجہ سے فاسد ہے، اجارہ فاسدہ کی صورت میں طے شدہ اجرت نہیں ملتی بلکہ اس جیسے کام پر جتنی اجرت دینے کا رواج ہووہ ملتی ہے( جسے اجرت مثل کہا جاتا ہے)، لہذا مذکورہ صورت میں جن کسانوں کو جانور پالنے کیلئے دیئے جائیں انہیں اجرت مثل ملے گی اور جانوروں کی پوری قیمت جتنی بھی بنتی ہو مالک کو ملے گی، کسانوں کا اس میں کوئی حق نہیں ہوگا، البتہ اس دوران جانور کے علاج معالجے اور چارے وغیرہ پر جو اخراجات کئے جاتے ہیں ان کی ادائیگی مالک کے ذمے لازم ہے۔

نیز اس دوران دودھ استعمال کرنے کا حق بھی چونکہ اصل مالک ہی کو حاصل ہے، اس لئے کسان جتنا دودھ استعمال کرتے ہیں  محتاط اندازے کے مطابق اتنا دودھ یا اس کی قیمت مالک کو دینا ان کے ذمے لازم ہے، البتہ اگر مالک اپنی مرضی سے نہ لینا چاہے تو کوئی حرج نہیں۔

اس کی متبادل اور ممکنہ صحیح صورت یہ ہے کہ جانور کا مالک جانور کی ایک متعین قیمت لگاکر دوسرے کو جانور کا نصف حصہ فروخت کردے ، اس کے بعد اس نصف حصے کی قیمت اس سے لے لے یا اس کو معاف کردے، اس طرح کرنے کے بعد یہ دوسرا شخص اس جانور کے آدھے حصے کا مالک بن جائے گا اور نتیجتا اس جانور سے حاصل ہونے والے دودھ وغیرہ میں بھی آدھے حصے کا مالک بن جائے گا، اس کے بعد یہ جانور اس دوسرے شخص کو پرورش کیلئے دے،اس دوران چارے وغیرہ کا جو خرچہ آئے گا وہ بھی ملکیتی حصوں کے مطابق آدھا آدھا ہر ایک پر آئے گا۔البتہ اگر خریدار کو  رقم معاف کی گئی ہو اور اس احسان کے بدلے میں وہ جانور کے چارہ وغیرہ کے اخراجات کا آدھا حصہ بیچنے والے سے وصول نہ کرے تو  بھی حرج نہیں، نیز پالنے والا شخص اگر دیکھ بھال کرنے کی آدھی اجرت  اپنے شریک سے لینا چاہے تو بھی لے سکتا ہے۔

 واضح رہے کہ اگر بالفرض جانور کا مالک  بیچے گئے نصف جانور کی قیمت شریک کو معاف نہیں کرنا چاہتا اور شریک کے پاس فی الحال رقم نہ ہو تو مالک شریک کو مہلت دے اور جانور بکنے کے بعد اپنے دین کی رقم وصول کرلے، اس کے بعد جو رقم بچے گی وہ دونوں کے درمیان ان کی ملکیتی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔ 

حوالہ جات
الدر المختار  (6/ 46)
(تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر (يفسدها) كجهالة مأجور أو أجرة أو مدة أو عمل، وكشرط طعام عبد وعلف دابة ومرمة الدار أو مغارمها وعشر أو خراج أو مؤنة رد أشباه۔
الفتاوى الهندية (4/ 445)
دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة وعلى صاحب البقرة للرجل أجر قيامه وقيمة علفه إن علفها من علف هو ملكه لا ما سرحها في المرعى ويرد كل اللبن إن كان قائما، وإن أتلف فالمثل إلى صاحبها لأن اللبن مثلي، وإن اتخذ من اللبن مصلا فهو للمتخذ ويضمن مثل اللبن لانقطاع حق المالك بالصنعة والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما وكذا لو دفع الدجاج على أن يكون البيض بينهما أو بزر الفيلق على أن يكون الإبريسم بينهما لا يجوز والحادث كله لصاحب الدجاج والبزر.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 48)
(و) تفسد (بجهالة المسمى) كله أو بعضه كتسمية ثوب أو دابة أو مائة درهم على أن يرمها المستأجر لصيرورة المرمة من الأجرة فيصير الأجر مجهولا (و) تفسد (بعدم التسمية) أصلا أو بتسمية خمر أو خنزير (فإن فسدت بالأخيرين) بجهالة المسمى وعدم التسمية (وجب أجر المثل) يعني الوسط منه ولا ينقص عن المسمى لا بالتمكين بل (باستيفاء المنفعة) حقيقة كما مر (بالغا ما بلغ) لعدم ما يرجع إليه ولا ينقص عن المسمى۔

         محمدنصیر

     دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

‏        2،جمادی الاخری، 1443ھ 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نصیر ولد عبد الرؤوف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب