021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خلع کے بعد دوبارہ نکاح کرنے کا حکم
78801طلاق کے احکامعدت کا بیان

سوال

ایک شخص مثلا زیدسے میرا نکاح ہوا، اللہ پاک نے بیٹی سے نوازا، گھر میں زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی، پھر ہماری خوشیوں کو نظر لگ گئی، گھر میں ناچاقی اس حد تک بڑھ گئی کہ خلع تک نوبت آگئی،  میں نے خلع کے پیپر بنوائے اور وہ پیپر اپنے پاس رکھ لیے، جب اپنے شوہر سے میری بات خراب ہوئی تو میں نے کہا میں اپنی ماں کے گھر جانا چاہتی ہوں، شوہر نے کہا کہ اگر اپنی ماں کے گھر جانا ہے تو خلع کے پیپر پر دستخط کر کے جاؤ گی، میں خلع کے پیپر پر دستخط کرکے اپنی ماں کے گھر آگئی، اس کے بعد میرے ماموں پیپر لے کر شوہر کے پاس گئے اور ان سے خلع کے پیپرز پر دستخط کروا لیے، خلع میں یہ بات طے ہوئی کہ بیٹی باپ کے پاس رہے گی اور ہر پندرہ دن بعد اپنی ماں سے ملاقات کرے گی،  اب خلع کو سات ماہ ہو چکے ہیں، میں اپنی ماں کے گھر ہوں اور میں نے خلع کے بعد عدت نہیں گزاری، خلع کے ڈیڑھ ماہ بعد بیٹی سے ملاقات کے لیے اپنے شوہر سے فون پر رابطہ کیا، اس کے بعد اب ہر پندرہ دن بعد بیٹی سے ملاقات ہوتی ہے اور بیٹی کے سلسلہ میں مجھے شوہر سے بات کرنا ہوتی ہے، اس طرح ہم فون پر بات بھی کرتے ہیں اور میرے شوہر مجھے خرچہ بھی دیتے ہیں، مجھے اور شوہر کو اب ندامت ہوتی ہے اور اپنی غلطی پر افسوس بھی ہوتا ہے، اس لیے میں اور میرے شوہر پھر سے ایک ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور ہم اپنی بیٹی کے لیے ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں، آپ سے گزارش ہے کہ اس مسئلے کا حل بتایے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں اگر میاں بیوی دونوں نے اپنی مرضی سے خلع کے کاغذات پر دستخط کیے ہیں تو اس صورت میں شوہر کے دستخط کرنے کی تاریخ سے فریقین کے درمیان نکاح ختم ہو چکا ہے اور اس کے بعد عدت گزارنا شرعاً آپ کے ذمہ واجب تھا، باقی شرعی اعتبار سے عدت خود بخود گزر جاتی ہے، البتہ عدت کے دوران متعلقہ شرعی  احکام (جیسے گھرسے باہر نہ نکلنا اور زیب زینت اختیار نہ کرنا وغیرہ)  پورے نہ کرنے کی وجہ سے عورت گناہ گار ہوتی ہیں، لہذا اگر آپ نے عدت کے دوران ان احکام کو پورا نہیں کیا تو اس پر  اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے۔

اب آئندہ کے لیے حکم یہ ہے کہ فریقین باہمی رضامندی سے گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں، البتہ نکاح کے بعد شوہر کو صرف دو طلاقوں کا باقی ہو گا، لہذا آئندہ طلاق کے معاملے میں احتیاط کی ضرورت ہو گی۔

حوالہ جات
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (3/ 335) دار الكتب العلمية، بيروت:
قال علماؤنا رحمهم الله: الخلع طلاق بائن ينتقص به من عدد الطلاق، به ورد الأثر عن رسول الله صلى الله عليه وسلّم وعن عمر وعلي وابن مسعود رضي الله عنهم. وقال الشافعي رحمه الله: هو فسخ لا ينتقص به من عدد الطلاق، وهو قول ابن عباس رضي الله عنه، وتكلّم أصحابنا رحمهم الله فيما إذا قضى قاضٍ بكونه فسخاً، هل ينفذ قضاؤه؟ منهم من قال ينفذ، ومنهم من قال لا ينفذ، وتكلّم المشايخ في لفظة البيع والشراء هل لابن عباس رضي الله عنه فيه قول كما في الخلع، قال بعضهم ليس له فيه قول وهو طلاق بائن بالاتفاق.
النتف في الفتاوى للسغدي (1/ 348) مؤسسة الرسالة،بيروت:
يخلع الرجل امرأته بمهرها او بغير مهرها ثم يطلقها ثم طلقها قبل ان تمضي عدتها فالخلع طلاق بائن والطلاق خلع رجعي ولا يدخل الرجعي على البائن من ذلك في قولهما.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

15/جمادى الاخری 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب