021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
واقف کی شرط کے خلاف متولی کو تبدیل کرنا جائز نہیں
75249وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

خیر پور میرس کےایک شخص در محمد نے اپنا ایک پلاٹ خيرپور کی جمیعت علمائے اسلام کے لیے وقف کیا، رجسٹری اور قانونی کاغذات میں لکھا کہ یہ پلاٹ جمیعت کے شعبہ تعلیم وتبلیغ، درس گاہ اور دفتر وغیرہ کے لیے استعمال ہو گا اور امیر جمیعت علمائے اسلام ضلع خیر پور اس کا متولی رہے گا۔ اس وقف کے کئی سال بعد چند علمائے کرام واقف کی اس صراحت کے برعکس ایک شخص کو اس کا تا حیات متولی بنا دیا، جبکہ واقف نے لکھا تھا کہ اس کا متولی ہر دور میں جمیعت کا ضلعی امیر رہے گا۔اب سوال یہ ہے:

  1. واقف كی صراحت كے برعكس كسی شخص کو اس کا متولی بنانا شرعا کیسا ہے؟
  2. کیا واقف کی رضامندی کے بغیر کسی کو اس کا متولی بنایا جا سکتا ہے؟
  3. اگر یہ درست نہیں تو کیا واقف کی شرط کے مطابق یہ تولیت جمیعت کے ضلعی امیر کو واپس دلوائی جائے گی یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1،2،3:  صورتِ مسئولہ میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق اگر واقعتاً واقف نے مذکورہ پلاٹ جمیعت علمائے اسلام کے لیے وقف کیا تھا اور یہ بھی صراحت کی تھی کہ اس کا متولی ہر دور میں جمیعت علمائے اسلام کا ضلعی امیر ہوا کرے گا تو اس صورت میں واقف کی اس شرط کی رعایت ضروری ہے، فقہائے کرام رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ "شرط الواقف کنص الشارع" یعنی واقف کا وقف میں کوئی جائز شرط لگانا شارع علیہ السلام کے حکم کی طرح ہے، جس طرح شارع علیہ السلام کے حکم کی مخالفت جائز نہیں، اسی طرح واقف کی طرف سے وقف میں لگائی گئی شرط کی مخالفت بھی جائز نہیں، بشرطیکہ وہ شرط شریعت کے خلاف نہ ہو۔

لہذا چند علمائے کرام کا واقف کی شرط کے خلاف تاحیات کسی شخص کو اس پلاٹ کا متولی بنانا درست نہیں، اس لیے اس شخص کو معزول کرکے واقف کی شرط کی رعایت کرتے ہوئے جمیعت  علمائے اسلام کے خیر پور میرس کے ضلعی امیر کو متولی بنانا ضروری ہے، البتہ اگر یہ امیر کسی بھی وجہ سے وقف کی تولیت کا اہل نہ ہو تو ایسی صورت میں اس کو معزول کر کے کسی صالح للوقف شخص کو متولی مقرر کیا جائے ، کیونکہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے صراحت کی ہے کہ واقف کی طرف سے مقرر کردہ متولی اگر فاسق ہو جائے یعنی تولیت کا اہل نہ رہے تو قاضی (موجودہ زمانے میں حکومت کی طرف سے اوقاف کی نگرانی نہ ہونے کے باعث جماعت المسلمین قاضی کے قائم مقام ہے، جماعت المسلمین سے علاقے کے امانتدار اہلِ حل وعقد افراد مراد ہیں، جن میں بعض علماء بھی شامل ہوں) اس کو معزول کرکے کسی امانتدار اور اہلیت رکھنے والے شخص کو متولی بنائے گا اور تولیت کے سلسلہ میں فقہائے کرام رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ اگر متولی میں درج ذیل شرائط پائی جائیں تو اس  کو وقف کا انتظام سنبھالنے کا اختیار حاصل ہے، ورنہ نہیں:

ا: گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا نہ ہو۔

۲: امانت داری کے ساتھ وقف کی نگرانی اور دیکھ بھال کرتا ہو۔

۳: وقف کے مال میں خیانت اور دھوکہ دہی کا ارتکاب  نہ کرے۔

۴: کسی وجہ سے وقف کے انتظام وانصرام کی اہلیت مفقود نہ ہو، جیسے جنون وغیرہ۔

۵: وقف ميں لگائی گئی شرائط کی پاسداری کرتا ہو۔(ماخوذ از بتصرف اسلام كا نظامِ اوقاف:ص:548تا556)

حوالہ جات
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (6/ 146) المطبعة الكبرى الأميرية   بولاق، القاهرة:
وعن ابن سلام باني المسجد أولى بالعمارة والقوم أولى بنصب الإمام والمؤذن، وعن الإسكاف الباني أحق بذلك. قال أبو الليث - رحمه الله - وبه نأخذ إلا أن ينصب والقوم يرون من هو أصلح لذلك والله أعلم۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 459) دار الفكر-بيروت:
قلت:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قوله الباني أولى بنصب الإمام والمؤذن في المختار إلا إذا عين القوم أصلح ممن عينه، وبه ظهر الجواب عما نقله الشارح عن الأشباه من قوله ولم أر حكم عزله لمدرس وإمام ولا هما، وهو أنه جائز للمصلحة إذا كانا مشروطين في أصل الوقف فبدونه بالأولى، وقد ظهر أنه ليس المراد أنه يجوز للواقف الرجوع عن شروط الوقف كما فهمه الشارح، حتى تكلف في شرحه على الملتقى للجواب عما قدمه عن الدرر قبيل قول المصنف اتحد الواقف والجهة من أنه ليس له إعطاء الغلة لغير من عينه لخروج الوقف عن ملكه بالتسجيل. اهـ.
الفتاوى الهندية (2/ 408) دار الفكر،بیروت:
الصالح للنظر من لم يسأل الولاية للوقف وليس فيه فسق يعرف هكذا في فتح القدير وفي الإسعاف لا يولى إلا أمين قادر بنفسه أو بنائبه۔
المغني (6/ 40) لابن قدامة المقدسي (المتوفى: 620هـ) مكتبة القاهرة:
 وإن ولاه الواقف وهو فاسق، أو ولاه وهو عدل وصار فاسقا، ضم إليه أمين ينحفظ به الوقف، ولم تزل يده؛ ولأنه أمكن الجمع بين الحقين. ويحتمل أن لا تصح توليته، وأنه ينعزل إذا فسق في أثناء ولايته؛ لأنها ولاية على حق غيره، فنافاها الفسق، كما لو ولاه الحاكم، وكما لو لم يمكن حفظ الوقف منه مع بقاء ولايته على حق غيره، فإنه متى لم يمكن حفظه منه أزيلت ولايته، فإن مراعاة حفظ الوقف أهم من إبقاء ولاية الفاسق عليه.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 380) دار الفكر-بيروت:
القيم إذا لم يراع الوقف يعزله القاضي وفي خزانة المفتين إذا زرع القيم لنفسه يخرجه القاضي من يده۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 265) دار الكتاب الإسلامي:
وإنما الكلام الآن في شروط الواقفين فقد أفادوا هنا أنه ليس كل شرط يجب اتباعه فقالوا هنا إن اشتراطه أن لا يعزله القاضي شرط باطل مخالف للشرع وبهذا علم أن قولهم شرط الواقف كنص الشارع ليس على عمومه قال العلامة قاسم في فتاواه أجمعت الأمة أن من شروط الواقفين ما هو صحيح معتبر يعمل به ومنها ما ليس كذلك ونص أبو عبد الله الدمشقي في كتاب الوقف عن شيخه شيخ الإسلام: قول الفقهاء: نصوصه كنص الشارع يعني في الفهم والدلالة لا في وجوب العمل مع أن التحقيق أن لفظه ولفظ الموصي والحالف والناذر وكل عاقد يحمل على عادته في خطابه ولغته التي يتكلم بها وافقت لغة العرب ولغة الشرع أم لا ولا خلاف أن من وقف على صلاة أو صيام أو قراءة أو جهاد غير شرعي ونحوه لم يصح. اهـ.
منحة الخالق على البحر الرائق (5/ 265) دار الكتاب الإسلامي:
وقال الرملي قال هذا الشارح في فتاواه ويصح أن يكون التشبيه في وجوب العمل أيضا من جهة أن الصرف في الوقف على اتباع شرطه لأنه إنما أوصى بملكه فهذه الشروط لا بد من مراعاتها وذكر الشارح في كتاب القضاء عند الكلام على قوله وإذا رفع إليه حكم قاض إمضاء إلخ نقلا عن الأشباه والنظائر للأسيوطي معزيا إلى فتاوى السبكي أن قضاء
القاضي ينقض عند الحنفية إذا كان حكما لا دليل عليه قال وما خالف شرط الواقف فهو مخالف للنص وهو حكم لا دليل عليه سواء كان نصه في الواقف نصا أو ظاهرا. اهـ.
قال هذا الشارح وهذا موافق لقول مشايخنا كغيرهم شرط الواقف كنص الشارع فيجب اتباعه كما في شرح المجمع للمصنف اهـ.
فهذا يؤيد قوله ويصح أن يكون التشبيه في وجوب العمل أيضا تأمل والله تعالى أعلم اهـ.
 

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراتشی

7/جمادی الاخری 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب