75370 | زکوة کابیان | ان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی |
سوال
مسئلہ یہ پوچھنا تھا کہ میرے کافی سارے مکانا ت ہیں جن کو میں نے کرائے پر دیا ہوا ہے ،اور کرایہ داری میں یہ قانون ہے کہ جب کرایہ دار مکان کرائے پر لیتا ہے تو وہ چھ مہینے کے کرائے کی رقم ایڈوانس میں دیتا ہے ، وہ رقم ہمارے پاس محفوظ رہتی ہے ، اور اگر ضرورت پڑے تو ہم اس کو استعمال بھی کر لیتے ہیں ۔جب کرائے دار مکان چھوڑ کر جانے لگتے ہیں تو گھر میں اگر کوئی نقصان کیا ہو تو وہ اس رقم سے پورا کیا جاتا ہے ، اور باقی رقم ان کو واپس لوٹائی جاتی ہے،سوال یہ تھا کہ جب تک یہ رقم ہمارے پاس رہتی ہے تو اس کی زکاۃ کس پر لازم ہوگی؟بسا اوقات یہ رقم کئی سالوں تک ہمارے پاس رہتی ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
کرایہ داری کے معاملہ میں زرِ ضمانت کے طور پر مالک مکان کے پاس جو رقم رکھوائی جاتی ہے وہ ابتداءً امانت ہوتی ہے اور انتہاءً قابلِ وصول قرض ہوتی ہے، دونوں پر زکاۃ آتی ہے ، لہذا اس کی زکاۃ کرایہ دار کے ذمہ ہے،مالک مکان نے کیونکہ اتنی ہی رقم واپس بھی کرنی ہوتی ہے ،لہذا قرض منہا کرنے کی وجہ سے اس پر زکاۃ نہیں آتی ۔
حوالہ جات
قال العلامۃالحصکفی رحمۃ اللہ علیہ: (و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم (و) عند قبض (مائتين منه لغيرها) أي من بدل مال لغير تجارة وهو المتوسط كثمن سائمة وعبيد خدمة ونحوهما مما هو مشغول بحوائجه الأصلية كطعام وشراب وأملاك. (رد المحتار:2/305)
محمد طلحہ شیخوپوری
دار الافتاء ،جامعۃ الرشید،کراچی
6 جمادی الثانیۃ/1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طلحہ بن محمد اسلم شیخوپوری | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |