021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تقسیم میراث کا مسئلہ
75547میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

عبد الرحیم کے نواسے کا دعوی کس پر ہونا چاہیے؟؟؟

عبد اللہ خان پر اس کا دعوی درست ہے یا نہیں؟؟؟

اگر درست ہے تو عبد اللہ خان نے جو قیمت اس وقت دے کر خریدی ا س کا کیا ہو گا؟؟؟

اگر دعوی عبد الرزاق پر ہو تو وہ فوت ہو چکا ہے، اور اسکی  تمام اولاد پاگل ہے، یہاں تک کہ وہ نوٹ میں فرق بھی نہیں کر سکتے ، البتہ ان کی اور ان کے تمام  حالات کی نگرانی ایک دوسرا آدمی کر رہا ہے۔

وضاحت از مستفتی:  عبد الرحیم جب زمین بیچ رہا تھا تو اس وقت عبدا للہ خان کی والدہ نے کہا تھا کہ اگر آپ اس زمین کو بیچنا چاہیں تو بیچ سکتے ہیں اور پور ی رضامندی کا اظہار کیا تھا۔

وضاحت از مستفتی:  عبد الرازق نے جو زمین  عبد اللہ خان کو بیچی ہے وہ کادل کی تھی، عبد الرازق نے کادل کی وفات کے بعد اس کی  زمین پر قبضہ کر کے  یہ زمین عبد اللہ خان کو بیچی ۔عبد الرحیم کے نواسے کا دعوی اس طور پر ہے کہ یہ زمین کادل کی تھی اور چونکہ میری ماں بھی  کادل کی بھتیجی تھی لہذا وہ بھی اس کی وارث ہے اور اس کا حصہ مجھے ملنا چاہیے۔عبد الرحیم کے نواسے (مدعی ) کا نام  محمد ظفر ہے اور ظفر کی والدہ کا نام "ھنفو" ہے۔

وضاحت از مستفتی:" کادل" کی وفات کے وقت  اس کے اصول ( والدین  ۔۔الخ) و فروع  ( اولاد ۔۔۔الخ) میں سے کوئی زندہ نہیں تھا، کادل کی وفات کے وقات اس کے رشتہ داروں میں سے محض اس کا بھائی  عبد الرزاق اور بھتیجے بھتیجیاں موجود تھیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

"کادل "کی وفات کے وقت اس کے  رشتہ داروں  میں سے  چونکہ محض ایک بھائی" عبد الرزاق " اور بھتیجے ،بھتیجیاں موجود تھیں لہذا  اس صورت میں پورے ترکہ کا شرعی حقدار  صرف"  کادل" کا بھائی "عبد الرزاق" ہے ، اور" کادل" کی ساری میراث عبد الرزاق  کو دی جائیگی ، کادل کے دیگر بھتیجے ، بھتیجیوں کا" کادل "کی میراث میں کوئی حصہ نہیں ہے ۔

جب یہ بات واضح ہو چکی کہ" کادل" کے ترکہ کا حقدار محض اس کا بھائی عبد الرزاق ہے تو  پھر عبد الرزاق کا"کادل" کی وفات کے بعد اس کی زمین  کسی کو بیچ دینا جائز اور درست ہے ، کیونکہ یہ زمین اب عبد الرزاق کی ملکیت بن چکی ہے اور اسے  اس میں ہر طرح کا تصرف کرنے کا مکمل اختیار ہے، اسی طرح" عبد اللہ خان" کے لیے بھی "عبد الرزاق  "سے یہ زمین خریدنا جائز  اور درست ہے اور فی الوقت  یہ  زمین  "عبد اللہ  خان" کی ملکیت بن چکی ہے۔

لہذا محمد ظفر کا عبد اللہ خان پر   دعوی ناجائز اور مسترد ہے، جس کی شرعا کوئی حیثیت نہیں، نیز اس زمین یا اس کی قیمت کے لیے محمد ظفر  کو عبد الرزاق ،اس کی اولاد  یا کسی بھی دیگر شخص پر  بھی دعوی کا شرعا کوئی حق نہیں ہے، کیونکہ اس زمین میں محمد ظفر کا کسی بھی طرح کا کوئی حق  نہیں ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 773)
فصل في العصبات العصبات النسبية ثلاثة عصبة بنفسه وعصبة بغيره وعصبة مع غيره (يحوز العصبة بنفسه وهو كل ذكر) فالأنثى لا تكون عصبة بنفسها بل بغيرها أو مع غيرها (لم يدخل في نسبته إلى الميت أنثى) فإن دخلت لم يكن عصبة كولد الأم فإنه ذو فرض وكأبي الأم وابن البنت فإنهما من ذوي الأرحام (ما أبقت الفرائض) أي جنسها (وعند الانفراد يحوز جميع المال) بجهة واحدة. ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل ثم أصله الأب ويكون مع البنت) بأكثر (عصبة وذا سهم) كما مر (ثم الجد الصحيح) وهو أبو الأب (وإن علا) وأما أبو الأم ففاسد من ذوي الأرحام (ثم جزء أبيه الأخ) لأبوين (ثم) لأب ثم (ابنه) لأبوين ثم لأب (وإن سفل) تأخير الإخوة عن الجد وإن علا قول أبي حنيفة وهو المختار للفتوى خلافا لهما وللشافعي.قيل وعليه الفتوى (ثم جزء جده العم) لأبوين ثم لأب ثم ابنه لأبوين ثم لأب (وإن سفل ثم عم الأب ثم ابنه ثم عم الجد ثم ابنه) كذلك وإن سفلا فأسبابها أربعة: بنوة ثم أبوة ثم أخوة ثم عمومة (و) بعد ترجيحهم بقرب الدرجة (يرجحون) عند التفاوت بأبوين وأب كما مر (بقوة القرابة فمن كان لأبوين) من العصبات ولو أنثى كالشقيقة مع البنت تقدم على الأخ لأب (مقدم على من كان لأب) لقوله - صلى الله عليه وسلم - «إن أعيان بني الأم يتوارثون دون بني العلات» . والحاصل: أنه عند الاستواء في الدرجة يقدم ذو القرابتين وعند التفاوت فيها يقدم الأعلى۔

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۹ جمادی الثانی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب