021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
انشورنس کمپنی سےمیڈیکل الاؤنس وصول کرنا
75393سود اور جوے کے مسائلانشورنس کے احکام

سوال

ہماری کمپنی(جہاں میں کام کرتاہوں)مختلف سہولیات کےساتھ میڈیکل کی سہولت بھی فراہم کرتی ہے،(جسکی مختلف شرائط ہیں)مسئلہ یہ ہےکہ جب کمپنی جوائن کرلی(ملازمت اختیارکرلی)تویہ پتہ چلاکہ اصل میں کمپنی نےبیمہ کمپنی جوبلی ہیلتھ انشورنس(Jublee Health Insurance)سےمعاہدہ کیاہواہے، اصل میں بیمہ کمپنی ہماری کمپنی کےملازمین کوصحت کی مدمیں رقم اداکرتی ہے(جسکی مختلف شرائط ہیں) معلوم یہ کرناتھاکہ یہ رقم جوبعض اوقات ہسپتال کواداکی جاتی ہےاوربعض اوقات ملازمین کوکمپنی دلواتی ہے،کیا بیمہ کمپنی سےیہ رقم لیناجائزہے؟جبکہ یہ رقم ملازم خودبیمہ کمپنی سےحاصل نہیں کرتاکمپنی لےکردیتی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

انشورنس کمپنی میں کسی قسم کی پالیسی شرعاًسود،جوااورغررپرمشتمل ہونےکی وجہ سےناجائز اورحرام ہے، البتہ اگرکسی نےپالیسی لےلی ہوتواس پالیسی کوجلدازجلدختم کرنااورتوبہ وستغفارلازم ہے۔

اس تمہید کےبعدیہ سمجھیں کہ ملازمین کےعلاج کےلیےکمپنی کی طرف سےعموماًمیڈیکل انشورنس کی دوصورتیں ہوتی ہیں:

(1)اختیاری(2)جبری

اختیاری یعنی ملازم خودکمپنی کےتوسط سےاپنےاختیارسےکسی انشورنس کمپنی سےمیڈیکل الاؤنس کےطورپر کوئی پلان خریدے،تواس صورت کاحکم یہ ہےکہ ملازم کےلیےمیڈیکل الاؤنس کی مدمیں انشورنس کمپنی سےصرف اداکی گئی پریمیم کے بقدرلیناجائزہے،اس سےزیادہ لیناحرام ہے۔

جبری یعنی کمپنی اپنی مرضی سےملازمین کےلیےکسی کمپنی سےمیڈیکل انشورنس کاپلان خریدے،جبری میڈیکل انشورنس کی تین صورتیں ہیں اوران کےلینےکاحکم درج ذیل ہیں:

  1. کمپنی کے ملازمین کسی کلینک یا ہسپتال سے علاج کراتے ہیں اور علاج کے اخراجات کلینک یا ہسپتال والے براہ راست انشورنس کمپنی سے وصول کرتے ہیں، اس صورت میں اگرچہ کمپنی کو انشورنس کے معاملے کا گناہ ہوگا، لیکن ملازم کے لیے جائز ہے کہ وہ علاج کرائے، کیونکہ علاج کے خرچ کی ذمہ داری کمپنی پر ہے، پهر وہ بلوں کی ادائیگی کے لیے جو طریق کار اختیار کرے، اس کا ذمہ دار کمپنی خود ہے۔
  2. دوسری صورت یہ ہےکہ کمپنی کےملازمین کسی ہسپتال یاکلینک سےعلاج کرواتےہیں،پھرہسپتال یاکلینک والےخودکمپنی سےعلاج کےاخراجات وصول کرتی ہے،یہ صورت بھی ملازم کےلیےجائزہے،البتہ کمپنی کےلیےیہ صورت بھی جائزنہیں ہے۔
  3. تیسری صورت یہ ہےکہ کمپنی ملازم کوکہےکہ وہ خودبراہ راست جاکر انشورنس کمپنی سےرقم وصول کرے،تواس صورت میں ملازم کےلیےصرف اتنی مقداررقم وصول کرناجائزہےجوکمپنی نےانشورنس کمپنی کوبطورپریمیم اداکی ہے،اس سےزائدمقداروصول کرناجائزنہیں ہے۔

ملازمین کواس بات کی کوشش کرنی چاہیےکہ وہ کمپنی کےفنانس ڈپارٹمنٹ اوردیگراس شعبےسےمنسلک افرادکواس بات کا مشورہ دیتےرہیں کہ،اس قسم کےالاؤنسز وغیرہ جوکمپنی جاری کرتی ہے،وہ ہمارےدین اورشریعت کے مطابق ہوں۔

حوالہ جات
(قال اللہ تبارك وتعالی فی القرآن الکریم)
ياأيها الذين آمنوا إنما الخمر والميسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشيطان فاجتنبوه لعلكم تفلحون  {المائدة 90}
الذين يأكلون الربا لا يقومون إلا كما يقوم الذي يتخبطه الشيطان من المس ذلك بأنهم قالوا إنما البيع مثل الربا وأحل الله البيع وحرم الربا {البقرة 275}
الأشباه والنظائر - حنفي (ص: 320)
 - الحرمة تتعدى في الأموال مع العلم إلا في حق الوارث فإن مال مورثه حلال له وإن علم بحرمته منه من الخانية و قيده في الظهيرية بألا يعلم أرباب الأموال
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 386)
في الذخيرة: سئل أبو جعفر عمن اكتسب ماله من أمر السلطان والغرامات المحرمة، وغير ذلك
هل يحل لمن عرف ذلك أن يأكل من طعامه؟ قال: أحب إلي في دينه أن لا يأكل ويسعه حكما إن لم يكن غصبا أو رشوة اهـ وفي الخانية: امرأة زوجها في أرض الجور إذا أكلت من طعامه، ولم يكن عينه غصبا أو اشترى طعاما أو كسوة من مال أصله ليس بطيب فهي في سعة من ذلك والإثم على الزوج ۔
الفتاوى الهندية (5/ 342)
قال الفقيه أبو الليث - رحمه الله تعالى - اختلف الناس في أخذ الجائزة من السلطان قال بعضهم يجوز ما لم يعلم أنه يعطيه من حرام قال محمد - رحمه الله تعالى - وبه نأخذ ما لم نعرف شيئا حراما بعينه، وهو قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وأصحابه، كذا في الظهيرية. الفتاوى الهندية (5/ 342)
قال الفقيه أبو الليث - رحمه الله تعالى - اختلف الناس في أخذ الجائزة من السلطان قال بعضهم يجوز ما لم يعلم أنه يعطيه من حرام قال محمد - رحمه الله تعالى - وبه نأخذ ما لم نعرف شيئا حراما بعينه، وهو قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وأصحابه، كذا في الظهيرية.
احكام المال الحرام (ص: 4)
وما ورد فى كلام بعض الفقهاء الحنفيّة أنّ الحُرمةَ لاتتعدّى إلى ذمّتين، فهو محمولٌ على ما إذا لم يعلم بذلك، أى إذا لم يعلمِ الآخذُ أنّ هذا المالَ حرامٌ غيرُ مملوكٍ للمعطى. وكذلك الصّحيحُ أنّه لايحلّ للورثة إذا علموا أنّه حرامٌ، سواءٌ علموا أربابَه أو لم يعلموا، فإن علِموا ردّوه إلى أربابه، وإن لم يعلموا
تصدّقوا به.

محمدعمربن حسین احمد

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

11جمادی الثانیہ 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عمر ولد حسین احمد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب