75333 | شرکت کے مسائل | شرکت سے متعلق متفرق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم صرف دوبھائی ہیں،ہماراکاروبارشرکت میں ہے اوروالدہ بھی حیات ہیں،ہم دونوں بھائی اپنی جائیداد اورملکیت تقسیم کرناچاہتےہیں،سوال یہ ہے کہ تقسیم میں برابری ضروری ہے یا برضاکم وبیشی پرتقسیم کرسکتے ہیں؟اس میں والدہ کابھی حصہ ہے یانہیں؟
o
اگر یہ کاروبار والدنے اپنی رقم سے شروع کیاتھا اوربیٹوں نے محنت کرکے اس کوترقی دی ہے تواس صورت میں یہ کاروبار والد کے ترکہ میں شمارہوگا،بیٹوں سمیت مرحوم کی اہلیہ کابھی اس میں حق ہے اوراگر یہ کاروبار بیٹوں نے اپنی آمدنی سے شروع کیا ہے،والد کی رقم نہیں تواس صورت میں کاروبار پران دونوں بھائیوں کاحق ہے،والدہ کااس میں حصہ نہیں،اگردونوں کے سرمایہ کاعلم ہے تواس اعتبارسے کاروبارکی تقسیم ہوگی،لیکن اگرکوئی بھائی اپنے حصہ سے کم لیناچاہے تو یہ بھی جائزہے اوراگردونوں کے سرمایہ کاعلم نہیں تو کاروبارکودوبرابرحصوں میں تقسیم کرکے ہربھائی ایک حصہ کاحق دار ہے،لیکن باہمی رضامندی سے کمی بیشی کرنا چاہیں تواس کی بھی اجازت ہے۔
حوالہ جات
وفی رد المحتار (ج 4 / ص 518):
مطلب اجتمعا في دار واحدة واكتسبا ولا يعلم التفاوت فهو بينهما بالسوية تنبيه: يؤخذ من هذا ما أفتى به في الخيرية فزوج امرأة وابنها اجتمعا في دار واحدة وأخذ كل منهما يكتسب على حدة ويجمعان كسبهما ولا يعلم التفاوت ولا التساوي ولا التمييز.
فأجاب بأنه بينهما سوية، وكذا لو اجتمع إخوة يعلمون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي .
وقدمنا أن هذا ليس شركة مفاوضة ما لم يصرحا بلفظها أو بمقتضياتها مع استيفاء شروطها، ثم هذا في غير الابن مع أبيه، لما في القنية الاب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شئ فالكسب كله للاب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له، ألا ترى لو غرس شجرة تكون للاب ثم ذكر خلافا في المرأة مع زوجها إذا اجتمع بعملهما أموال كثيرة، هي للزوج وتكون المرأة معينة له، إلا إذا كان لها كسب على حدة فهو لها، وقيل بينهما نصفان.
محمد اویس بن عبدالکریم
دارالافتاء جامعۃ الرشید
11/06/1443
n
مجیب | محمد اویس صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |