021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
منگنی کے بعد نکاح نہ کرنے کی وجہ سے مالی جرمانہ عائد کرنا
75329حدود و تعزیرات کا بیانتعزیر مالی کے احکام

سوال

میرا تعلق بلوچستان سے ہے اور بلوچستان ایک قبائلی علاقہ ہے جہاں اکثر فیصلے قبائل کے بڑے یعنی سردار، نواب، میر ومعتبر لوگ کرتے ہیں اور صلح کیلئے لوگوں پر مالی جرمانہ عائد کرتے ہیں۔

لیکن کچھ ایسے فیصلے ہوتے ہیں جوسمجھ میں نہیں آتے مثلااگر کسی لڑکی کی منگنی کی رسم ہوگئی بعد میں اگر کسی خاندانی اختلاف کی وجہ سے وہ منگنی فریقین میں سے کسی نے ختم کردی یعنی توڑ دی تو یہ فیصلہ قبائلی رہنما کے پاس جاتا ہے پھر وہ رہنما اس فریق پر جو رشتہ (منگنی) توڑنا چاہتا ہے (معیار) یعنی اس پر کچھ رقم لازم کرتا ہےجو اکثر لاکھوں میں ہوتے ہیں،اور اکثر ایسے مسائل میں علماء ہی گواہ بنتے ہیں۔

منگنی ہمارے عرف میں وعدہ نکاح کو کہتے ہیں جیسا کہ سب جگہ ہے یعنی مستقبل میں جاکر اپنی بیٹی یا بیٹے کا نکاح کروں گا سوال یہ ہے کہ:

1:  منگنی کی شرعی حیثیت کیا ہے اور مالی جرمانہ عائد کردینا درست ہے یا نہیں؟

2: اب ان پیسوں کو دوسرے فریق کیلئے استعمال کرنا کیسا ہے؟

3: کیا جس کے اوپر یہ پیسے لازم ہے اس بندے کا کوئی کفیل بن سکتا ہے؟

وضاحت: سائل سے استفسار کرتے وقت یہ معلوم ہوا کہ اصیل نے فیصلے والی مجلس کے اندر کفالت دینے سے انکار کیا تھا لیکن اس مجلس میں ایک شخص نے اصیل کے انکار کے باوجود ان پیسوں کی کفالت اپنے ذمے لی تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1: منگنی کی شرعی حیثیت ایک وعدے کی ہے،وعدے کی پاسداری وعدہ کرنے والے پر شرعا لازم ہے، اگر کوئی مسلمان وعدہ کر کہ بلا عذر وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ اللہ کے ہاں گناہگار ہے، البتہ کسی عذر کی وجہ سے وعدے کی پاسداری نہ ہوسکے تو اس پر شرعا کو ئی گناہ نہیں ہے۔احناف کے نزدیک تعزیر بالمال جائز نہیں ہے یعنی کسی جرم کی  پاداش میں سزا کے طور پر کسی پر  مالی جرمانہ لگانا جائز نہیں ہے۔

صورت مسؤولہ میں  دونوں فریقوں میں سے اگر کوئی ایک فریق  منگنی کے ذریعے وعدہ نکاح کرنے کے بعد  بغیر کسی عذرمعتبر کے  مکر جاتا ہے تو  وہ اللہ کے ہاں گناہگار شمار ہوگا، اس طرح انکار کرنے کی صورت میں  قبائلی فیصلے کے ذریعے انکار کرنے والے  فریق  سے غیر شرعی اور رسمی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے  جو رقم لی جاتی ہے  وہ رقم لینا جائز نہیں ہے۔

2: دوسرے  فریق کیلئے یہ پیسے استعمال کرنا جائز نہیں ہے، اصل مالک کو واپس کرنا ضروری ہے۔

 3: کفالت کی صحت کیلئے  مکفول بہ (یعنی وہ مال جس کی کفالت لی جارہی ہے ) کا اصیل کے ذمے میں قرض  ہونا ضروری ہے، کیونکہ اگر اصیل پر  قرض کی ادائیگی لازم ہوگی تب جاکر کفیل کے ذمے اس کی ادائیگی لازم ہوسکے گی،  کفالت کی صحت کیلئے کفیل اور مکفول عنہ کے درمیان ایجاب وقبول کا ہونا ضروری ہے اگر صرف کفیل کی طرف سے ایجاب ہوجائے اور مکفول عنہ کفالت دینے سے صاف انکار کردے تو اس صورت میں بالاتفاق کفالت منعقد نہیں ہوگی۔

لہذا صورت مسؤولہ میں صرف منگنی توڑنے کی پاداش میں ایک فریق پر جو مالی جرمانہ عائد کیا گیا ہے، اس جرمانے میں مکفول بہ بننے کی صلاحیت نہیں ہے، اس لئے اس کی ادائیگی اصیل پر لازم نہیں ہے جب اصیل پر اس کی ادائیگی لازم نہیں تو کفیل کا اس مال کی کفالت کرنا  بھی صحیح نہیں ہے، نیز یہ کہ اسی مجلس میں مکفول بہ کے صاف انکار کردینے سے یہ کفالت منعقد ہی نہیں ہوئی۔

بہر صورت یہ کفالت منعقد نہیں ہوئی اس لئے اس بندے کا کفیل بننا صحیح نہیں ہے، اور اس پر اس مال کی ادائیگی بھی لازم نہیں  ہے۔

حوالہ جات
غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر (3/ 236)
(12) قوله: الخلف في الوعد حرام.
قال السبكي: ظاهر الآيات والسنة تقتضي وجوب الوفاء، وقال صاحب العقد الفريد في التقليد: إنما يوصف بما ذكر أي بأن خلف الوعد نفاق إذا قارن الوعد العزم على الخلف كما في قول المذكورين في آية {لئن أخرجتم لنخرجن معكم} [الحشر: 11] فوصفوا بالنفاق لإبطانهم خلاف ما أظهروا وأما من عزم على الوفاء ثم بدا له فلم يف بهذا لم يوجد منه صورة نفاق كما في الإحياء من حديث طويل عند أبي داود والترمذي مختصرا بلفظ «إذا وعد الرجل أخاه، ومن نيته أن يفي فلم يف فلا إثم عليه» (انتهى) .
وقيل: عليه فيه بحث فإن أمر «أوفوا بالعقود» مطلق فيحمل عدم الإثم في الحديث على ما إذا منع مانع من الوفاء.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 61)
مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه ۔۔۔۔۔۔وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ.                                           
بذل المجهود في حل سنن أبي داود (1/ 359)
صرح الفقهاء بأن من اكتسب مالاً بغير حق، فإما أن يكون كسبه بعقد فاسد، كالبيوع الفاسدة والاستئجار على المعاصي والطاعات، أو بغير عقد، كالسرقة والغصب والخيانة والغلول، ففي
جميع الأحوال المال الحاصل له حرام عليه، ولكن إن أخذه من غير عقد ولم يملكه يجب عليه أن يرده على مالكه إن وجد المالك، وإلَّا ففي جميع الصور يجب عليه أن يتصدق بمثل تلك الأموال على الفقراء۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 283)
فی الدر:(وركنها إيجاب وقبول) بالألفاظ الآتية ولم يجعل الثاني ركنا
(وشرطها كون المكفول به) نفسا أو مالا (مقدور التسليم) من الكفيل فلم تصح بحد وقود (وفي الدين كونه صحيحا قائما) لا ساقطا بموته مفلسا، ولا ضعيفا كبدل كتابة ونفقة زوجة قبل الحكم بها، فما ليس دينا بالأولى نهر۔
وفی حاشیتہ: (قوله: وركنها إيجاب وقبول) فلا تتم بالكفيل وحده ما لم يقبل المكفول له أو أجنبي عنه في المجلس رملي. (قوله: ولم يجعل الثاني) أي أبو يوسف، وقوله الثاني: أي القبول وهو بالنصب على أنه مفعول يجعل، وقوله: ركنا مفعوله الآخر أي فجعلها تتم بالإيجاب وحده في المال والنفس.
واختلف على قوله، فقيل تتوقف على إجازة الطالب، فلو مات قبلها لا يؤاخذ الكفيل، وقيل تنفذ وللطالب الرد كما في البحر وهو الأصح كما في المحيط أي الأصح من قوليه نهر.وفي الدرر والبزازية: وبقول الثاني يفتى،وفي أنفع الوسائل وغيره: الفتوى على قولهما، وسيأتي تمامه عند قوله ولا تصح بلا قبول الطالب في مجلس العقد

   محمدنصیر

  دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

  12،جمادی الاخری، 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نصیر ولد عبد الرؤوف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب